تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

گھر داماد

ہمارے ایک دوست ’’بی۔ اے۔ پاس‘‘ ہیں، لیکن ’’بی بی پاس‘‘ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بی اے پاس دوست بے روزگار ہونے کے علاوہ خود دار آدمی بھی ہیں، لہٰذا ’’گھر داماد‘‘ بننے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں۔

چنانچہ ’’بی بی پاس‘‘ ہونے کا نہ سوال ہی پیدا ہوتا ہے اور نہ بچّہ۔ اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی اچھی سی نوکری ملے اور کوئی اچھا سا مکان کرائے پر لیں تاکہ بی بی پاس ہو۔

ہم نے ان بی اے پاس دوست کو بہتیرا سمجھایا کہ ’’میاں، یہ خود داری چھوڑو۔ بی اے پاس ہو تو اب بی بی پاس بھی ہوجاؤ۔ تمہاری بی بی تو سچ مچ کی ’’گھر والی‘‘ ہے۔ ہماری بیویوں کی طرح ’’گھر والی‘‘ تو نہیں کہ گھر کے مالک ہم، گھر کا کرایہ ہم دیں اور ہماری بی بی صاحبہ مفت میں گھر والی کہلائیں۔

مگر وہ جھکّی، خواہ مخواہ کے خود دار بی اے پاس دوست بی بی پاس ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔

حالاں کہ ان کے ’’خسر‘‘ صاحب ’’مُصِر‘‘ کہ ’’داماد‘‘ ان پر ’’اعتماد‘‘ کریں کہ ان کے ساتھ ’’روایتی بدنام گھر داماد‘‘ جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔

’’ساس‘‘ بے چاری ’’آس‘‘ لگائے بیٹھی ہیں کہ داماد کب ’’بی بی پاس‘‘ ہوگا۔

ایک دن ہمارے بی اے پاس دوست حسبِ معمول ہمارے پاس بیٹھے بی بی کی یاد میں ٹسر ٹسر روتے ہوئے ساس سُسر کو کوس رہے تھے، تو ہمیں بڑا غصّہ آیا اور ہم پھٹ پڑے۔

’’ارے کم بخت۔ جب تو کہیں نوکر نہیں ہوا تھا اور تیرے پاس رہنے کے لیے گھر تک نہیں تھا، تو تُو نے آخر شادی کی کیوں تھی؟‘‘

بی اے پاس دوست تنک کر بولا، ’’میں نے کب کی تھی۔ میرے سُسرال والوں نے مجھے دھوکہ دیا۔ شادی سے پہلے وہ کہتے تھے کہ مجھے ایک الگ گھر لے کر دیں گے، اور ایک دکان بھی لگا کر دیں گے لیکن شادی کے بعد سے میرے سسر صاحب بالکل انجان ہوگئے، اب وہ اسی بات پر مُصر ہیں کہ علیحدہ گھر خریدنا تو مشکل ہے اسی گھر کا ایک علیحدہ کمرہ دے دیں گے۔ یقین نہ آئے تو تم خود ان سے پوچھ لو۔‘‘

اتفاق سے اسی شام ایک اور ’’لڑکی کے نیلام‘‘ یعنی شادی کی تقریب میں ہمارے دوست کے خسر صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ ہم نے اپنے دوست کا ذکر چھیڑ کر پوچھا، ’’کیوں صاحب، کیا یہ صحیح ہے کہ آپ نے میرے دوست سے یہ وعدہ کیا تھا کہ شادی کے بعد اسے ایک علیحدہ گھر لے کر دیں گے اور ایک دکان بھی لگا کر دیں گے۔‘‘

یہ سُن کر بے چارے خسر صاحب کا چہرہ ایک دم مرجھا سا گیا اور وہ جیسے اپنے آنسو روک کر بولے، ’’ہائے، کیا مصیبت ہے۔ سترہ اٹھارہ برس تک بیٹی کو پال پوس کر پڑھا لکھا کر بڑا کیجیے اور شادی کے موقع پر بیٹی کے علاوہ ایک مکان، دکان اور روپیہ بھی دیجیے۔‘‘

اور پھر انہوں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اللہ، موجودہ لالچی زمانے میں کسی غیرت مند آدمی کو بیٹی کا باپ نہ بنا۔‘‘ ہمیں ان پر ترس تو آیا لیکن ہم یہ پوچھنے میں پھر بھی حق بجانب تھے کہ’’قبلہ، جب آپ مکان، دکان دینے کا وعدہ پورا نہ کرسکتے تھے تو آپ کو وعدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘

بے چارے بڑے آزردہ اور آب دیدہ ہوکر بولے، ’’آپ سچ کہتے ہیں۔ واقعی مجھے وعدہ نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میں اپنے وعدے پر اب بھی قائم ہوں مگر کیا کروں لالچ ہر جگہ ہے، جو مکان چار ہزار کی لاگت میں میرے سامنے تعمیر ہوا، اس کے اب بیس بیس، پچاس پچاس ہزار روپے مانگے جا رہے ہیں۔

میں نے صاحبزادے سے اب بھی وعدہ کیا ہے کہ چھ مہینے اور انتظار کریں۔ میری ایک بڑی رقم ایک محکمہ میں پھنسی ہے وہ مل جائے تو تمہیں خدا کی قسم ایک مکان لے دوں گا۔ جب تک تم میرے گھر کو اپنا گھر سمجھو لیکن میں حیران ہوں کہ ایک انسان بیک وقت لالچی اور خود دار کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

یہ درد ناک باتیں سن کر ہمیں ان بزرگ سے واقعی بڑی ہم دردی ہوگئی اور ہم نے وعدہ کیا کہ ہم ان کے نامعقول داماد کو آج ہی شام ان کے پاس پکڑ کر لائیں گے اور اسے گھر داماد بنائے بغیر نہ چھوڑیں گے۔ چنانچہ ہم بڑی ترکیب سے بہلا پھُسلا کر ان کے داماد کو گھر لے گئے۔ صلح صفائی کی باتوں میں جب داماد نے کہا، ’’لیکن اگر میں گھر داماد بن گیا تو لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

خُسر صاحب نے بڑے تلخ لہجے میں کہا، ’’برخوردار، میں پوچھتا ہوں کہ موجودہ زمانے میں کون گھر داماد نہیں ہے۔ ہر جہیز میں ایک مکان یا کوٹھی جو دی جاتی ہے، وہ کوئی داماد کے باپ کا گھر ہے؟‘‘

فرق صرف یہ ہوگیا ہے کہ پُرانے زمانے میں لڑکی کے والدین داماد کو گھر داماد بنالیا کرتے تھے اور موجودہ زمانے میں وہ داماد کے لیے جہیز میں ایک الگ ’’داماد گھر‘‘ خرید کردیتے ہیں۔

’’گھر داماد‘‘ نہ سہی…….. ’’داماد گھر‘‘ سہی۔ بات تو ایک ہی ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ زمانے میں کون شخص کسی نہ کسی شکل میں گھر داماد نہیں ہے؟‘‘

اور یہ کہہ کر خسر صاحب نے رازدارانہ لہجے میں اِدھر اُدھر دیکھ کر سَر جھکا لیا اور مَری ہوئی آواز میں بولے، ’’برخوردار، میں خود بھی گھر داماد ہوں۔‘‘

(معروف ادیب، طنز و مزاح نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کے قلم سے)

Comments

- Advertisement -