تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

میری زبان کی یہ لکنت آئی کہاں سے؟

منیر احمد قریشی کو ہم سب ‘منو بھائی’ کے نام سے جانتے ہیں۔

پاکستان کے اس ممتاز صحافی، کالم نویس اور ڈراما نگار نے اپنے کالم میں ایک بدترین اور بھونڈے معاشرتی رویّے کا ذکر نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ کیا تھا۔ بیدار مغز، زرخیز ذہن اور توانا و متحرک قلم کے حامل منو بھائی کو دراصل زبان لکنت کا مسئلہ لاحق تھا۔ اسی کالم سے پیشِ نظر اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

بچپن میں زبان کی لکنت یا تھتھلاہٹ کی وجہ سے جب مجھے ’’منیرا تھتھا‘‘ کہا جاتا تو گلی محلّے کے لڑکوں کے اظہار کی یہ غیر ضروری آزادی اور ضرورت سے زیادہ حقیقت بیانی میرے لیے بہت تکلیف دہ بلکہ اذیّت ناک ہوتی تھی۔

اسی وجہ سے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے سے گریز کرنے لگا تھا اور لڑکیوں کی دوستی، قربت اور محفل کو ترجیح دیتا تھا جو عام طور پر جسمانی کم زوریوں کا مذاق اڑانے سے پرہیز اور بلاوجہ ایذا رسانیوں سے گریز کرتی ہیں۔

کچھ اندازہ نہیں کہ اپنی اس عادت کی وجہ سے میری شخصیت میں کون کون سے جھول پیدا ہوئے ہوں گے اور کیسی کیسی کم زوریوں نے جنم لیا ہوگا اور میری یہ معذوری جس میں میرا کوئی اپنا قصور نہیں تھا میرے لیے کس قدر نقصان دہ ثابت ہوئی ہوگی۔

ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے میرے اندر کا اداکار، موسیقار بننے، مباحثوں میں حصّہ لینے اور سیاست کے میدان میں اترنے کا شوق خودکشی پر مجبور ہوگیا ہو۔ قبل از وقت خودکشی!

سوچنے کی بات تو یہ بھی ہوسکتی ہے کہ میری زبان کی یہ لکنت آئی کہاں سے؟

شعیب ہاشمی کے بھائی حمیر ہاشمی کی نفسیات کی مہارت بتاتی ہے کہ میں نے بائیں ہاتھ سے لکھنے کی کوشش کی ہوگی، مگر جب دائیں ہاتھ سے لکھنے پر مجبور کیا گیا تو میری زبان لڑکھڑانے لگی، مگر میرے مرحوم دوست جاوید شاہین اپنی شاعری میں کسی خاتون کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ؎

بھول جانے کے برابر ہی اسے یاد تھا میں… اور بھول جانے کے برابر ہی مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں کسی بات پر میرے والد صاحب نے میری امّی جان کو ایک تھپّڑ مارا تھا اور اس حادثے کے صدمے سے گزرنے کے فوراً بعد میری زبان میں لکنت آگئی تھی۔

اس لکنت نے مجھے یہ شعور دیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے تہذیبی اور سماجی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو کبھی کسی موٹے، کالے، لنگڑے اور گنجے شخص کو تضحیک یا مذاق کا نشانہ بنانے کی حماقت نہیں کی جائے گی۔

قدرتی جسمانی رنگت، ساخت یا کم زوری کو مذاق کی زد میں لانا دراصل قدرت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ خدا کی خدائی پر ایمان رکھنے والوں کو قدرتِ خداوندی کا مذاق اڑانے کے گناہ سے گریز کرنا چاہیے۔

Comments

- Advertisement -