تازہ ترین

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

لاہور کا جغرافیہ

تمہید
تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور کو دریافت ہوئے اب بہت عرصہ گزر چکا ہے، اس لیے دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کہنے کی اب ضرور نہیں کہ کُرے کو دائیں سے بائیں گھمائیے۔ حتیٰ کہ ہندوستان کا ملک آپ کے سامنے آ کر ٹھہر جائے پھر فلاں طول البلد اور فلاں عرض البلد کے مقامِ انقطاع پر لاہور کا نام تلاش کیجیے۔ جہاں یہ نام کُرے پر مرقوم ہو، وہی لاہور کا محل وقوع ہے۔ اس ساری تحقیقات کو مختصر مگر جامع الفاظ میں بزرگ یوں بیان کرتے ہیں کہ لاہور، لاہور ہی ہے، اگر اس پتے سے آپ کو لاہور نہیں مل سکتا، تو آپ کی تعلیم ناقص اور آپ کی دہانت فاتر ہے۔

محل وقوع
ایک دو غلط فہمیاں البتہ ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں۔ لاہور پنجاب میں واقع ہے۔ لیکن پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف چار دریا بہتے ہیں۔ اور جو نصف دریا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اسی کو اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔ ملنے کا پتہ یہ ہے کہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں۔ ان کے نیچے ریت میں دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے، اس لیے یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ شہر دریا کے دائیں کنارے پر واقع ہے یا بائیں کنارے پر۔ لاہور تک پہنچنے کے کئی رستے ہیں۔ لیکن دو ان میں سے بہت مشہور ہیں۔ ایک پشاور سے آتا ہے اور دوسرا دہلی سے۔ وسط ایشیا کے حملہ آور پشاور کے راستے اور یو۔ پی کے رستے وارد ہوتے ہیں۔ اول الذکر اہل سیف کہلاتے ہیں اور غزنوی یا غوری تخلص کرتے ہیں مؤخر الذکر اہل زبان کہلاتے ہیں۔ یہ بھی تخلص کرتے ہیں، اور اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

حدود اربعہ
کہتے ہیں، کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اس کو منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ اور روزبروز واقع تر ہو رہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے، کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہو گا۔ جس کا دار الخلافہ پنجاب ہو گا۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے، جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہو رہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے۔ جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔

آب و ہوا
لاہور کی آب و ہوا کے متعلق طرح طرح کی روایات مشہور ہیں، جو تقریباً سب کی سب غلط ہیں، حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے باشندوں نے حال ہی میں یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اور شہروں کی طرح ہمیں بھی آب و ہوا دی جائے، میونسپلٹی بڑی بحث و تمحیص کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ اس ترقی کے دور میں جب کہ دنیا میں کئی ممالک کو ہوم رول مل رہا ہے اور لوگوں میں بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں، اہل لاہور کی یہ خواہش ناجائز نہیں۔ بلکہ ہمدردانہ غور و خوض کی مستحق ہے۔

لیکن بدقسمتی سے کمیٹی کے پاس ہوا کی قلت تھی، اس لیے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ مفادِ عامہ کے پیش نظر اہل شہر ہوا کا بیجا استعمال نہ کریں، بلکہ جہاں تک ہو سکے کفایت شعاری سے کام لیں۔ چناں‌ چہ اب لاہور میں عام ضروریات کے لیے ہوا کے بجائے گرد اور خاص خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جا بجا دھوئیں اور گرد کے مہیا کرنے لیے مرکز کھول دیے ہیں۔ جہاں یہ مرکبات مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے، کہ اس سے نہایت تسلی بخش نتائج برآمد ہوں گے۔

بہم رسائی آب کے لیے ایک اسکیم عرصے سے کمیٹی کے زیر غور ہے۔ یہ اسکیم نظام سقے کے وقت سے چلی آتی ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ نظام سقے کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے اہم مسودات بعض تو تلف ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں ان کے پڑھنے میں بہت دقت پیش آ رہی ہے اس لیے ممکن ہے تحقیق و تدقیق میں چند سال اور لگ جائیں، عارضی طور پر پانی کا یہ انتظام کیا گیا ہے کہ فی الحال بارش کے پانی کو حتی الوسع شہر سے باہر نکلنے نہیں دیتے۔ اس میں کمیٹی کو بہت کام یابی حاصل ہوئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہر محلے کا اپنا ایک دریا ہو گا جس میں رفتہ رفتہ مچھلیاں پیدا ہوں گی اور ہر مچھلی کے پیٹ میں کمیٹی کی ایک انگوٹھی ہو گی جو رائے دہندگی کے موقع پر ہر رائے دہندہ پہن کر آئے گا۔

اردو ادب میں‌ فکاہیہ اور طنز و مزاح کے حوالے سے مشہور پطرس بخاری کے مضمون سے انتخاب

Comments

- Advertisement -