تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

ہر آنگن میں اُترا چاند…

چاند محض شب کی تاریکی میں اُجالے کی نوید ہی نہیں جانے کتنے دلوں کا قرار ہے۔ چاند سے جتنا استفادہ شاعروں اور خواتین نے کیا ہے شاید ہی اور کسی نے کیا ہو۔ یہاں تک کہ چاند سے خواتین کی والہانہ وابستگی کے طفیل دھرتی پر ان گنت چاند بکھر گئے۔ چاند خواتین کی امنگوں کا مرکز ازل سے رہا ہے اور ابد تک رہے گا۔

وہ پیشے اور شعبے جن پر صدیوں مردوں نے راج کیا ہے، اب خواتین بھی اُن میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔ اگر خواتین رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین میں شامل ہو گئیں تو شہادتوں کے باوجود چاند کا فیصلہ بہت دشوار ہو جائے گا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ خواتین ہر شے میں چاند کی شباہت تلاش کرتی ہیں، ہر عزیز چہرے کو چاند سے تشبیہ دیتی ہیں۔ یوں بھی شرعی نقطۂ نظر سے ایک مرد کی گواہی برابر ہے دو خواتین کی گواہی کے۔ اگر مردوں کے مساوی خواتین گواہوں کی ضرورت پڑی تو فی مرد کے مساوی دو خواتین اراکین شامل ہوں گی اور جتنی زیادہ خواتین ہوں گی اُتنی ہی زیادہ چاند کے اعلان میں تاخیر اور فساد کا اندیشہ ہے کہ اپنی فطرت کے عین مطابق خواتین کو پَل بھر میں چاند نظر آ جائے گا لیکن چاند پر کئی بار اختلاف ہوگا۔ کبھی کسی خاتون کو کسی شے پر چاند کا گمان ہوگا تو کبھی کسی کو اور کسی شے پر کہ چاند خواتین کا من پسند استعارہ ہر عہد میں رہا ہے مگر جدا جدا معیار کے ساتھ۔ سو بگاڑ کا احتمال بھی یقینی ہے۔ جب کہ مرد حضرات بہت دیدہ ریزی کے باوجود چاند دیکھنے میں دھوکہ کھا جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کبھی قبل از وقت عید کروا دیتے ہیں اور کبھی رات گئے۔ ہلالِ عید کی نوید سناتے ہیں اور اکثر تو ایسا بھی ہُوا ہے آدھی رات کو جب خواتین سکھ کی نیند میں بھی چاند کے سپنے دیکھ رہی ہوتی ہیں رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین کو عید کا چاند نظر آجاتا ہے۔

غور فرمائیے کہ اگر خواتین بھی رویتِ ہلال کمیٹی کی رکن ہوں تواس صورت میں اُن پر کیا بیتے گی؟ طلوعِ ماہتاب کے انتظار میں خواتین خود کو کس قدر بے بس محسوس کریں گی؟ میک اپ اس عرصے میں دغا دے جائے گا اور پھر یہ بھی کہ طلوعِ مہتاب کے انتظار کا عذاب خواتین کو مردوں کی بہ نسبت زیادہ جھیلنا پڑے گا کہ مردوں کی تمام توجہ چاند پر مرکوز ہو گی جب کہ خواتین کے مابین کچھ اس طرح کے مکالموں کا تبادلہ ہوگا کہ
”ہائے اللہ! اگر کل عید ہو گئی تو کیا ہو گا، ابھی تو مجھے پارلر بھی جانا ہے۔ مہندی ہتھیلی پر بھی لگانی ہے اور ہتھیلی کی پشت پر بھی اور اچھے بھلے سیاہ بال ڈارک براؤن کرنے ہیں، مگر یہ چاند قسم سے اس وقت تو سچ مچ ہرجائی لگ رہا ہے، بے وفا ایک جھلک ہی دکھا دیتا۔“

”تمہیں پارلر کی پڑی ہے اور میرے کپڑے بدبخت ٹیلر نے ابھی تک نہیں دیے، ایسا نہ ہو جب میں گھر پہنچوں تو وہ دکان بڑھا کر چل دے اور میں ہاتھ ملتی رہ جاؤں۔“

”یہ تو ہے، پچھلے سال شمی کے ساتھ یہی تو ہوا تھا، بیچاری کی عید کی ساری خوشی خاک میں مل گئی تھی۔ ٹیلر نے عید کے بعد کپڑے دیے تھے اور عید کے تین دن بعد اس وقت شمی نے عید منائی جب اُس کے کپڑے دیکھ کر انوشا کلس کر رہ گئی تھی اور شمی کے دل میں چراغاں ہو گیا تھا۔“

”اور میں اپنی جان کو رو رہی ہوں، رات بھر جاگ کر پورا گھر ڈیکوریٹ کرتی ہوں، میرے گھر کا کیا ہوگا جو عید ملنے آئے گا پہلے مجھ پر تھو تھو کرے گا۔ پھر تمسخر سے عید ملے گا۔ میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔ موا چاند نہ ہُوا بجلی ہو گئی غائب ہو جائے تو حاضر ہونا مشکل۔“

”ارے شمع تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں، قسم سے دیکھ کر ہول اٹھ رہے ہیں۔“

”تم کیسی لڑکی ہو جسے میری پریشانی کا اندازہ ہی نہیں ساری میچنگ جیولری، چوڑیاں، سینڈل چاند رات کو ہی لیتی ہوں، ہائے میرا پانچ ہزار کا سوٹ کیسا بے وقعت لگے گا ان سب کے بغیر اور خود میں کتنی ادھوری ادھوری لگوں گی۔“

”مجھ سے پوچھو عید کا چاند ہمیشہ اُن کے ساتھ دیکھتی ہوں، اُن کے بِنا ہر رنگ پھیکا اور عالم یہ ہے کہ
تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں

کاش اسوقت وہ میرے ساتھ ہوتے تو چاند مجھے پل بھر میں نظر آجاتا۔“

”نظر آجاتا! کیا مطلب؟ مجھے تو ہر سُو چاند ہی چاند نظر آرہا ہے۔“

”لیکن کہاں؟ خواتین نے متجسس نظروں سے دیکھا تو خاتون آنکھیں موندے کہہ رہی تھیں ”میرے دل میں جھانکو، ایمان سے۔“

جب تصور میں کبھی آپ کو پاتا ہے دل
آپ ہی کے حسن کی تصویر بن جاتا ہے دل

اور پھر یکا یک خاتون چلائیں ہائے اللہ“ ساتھی خاتون چہکیں، کیا ہُوا تصور ٹوٹ گیا یا چاند گم ہو گیا۔“

”یاد آگیا انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ عید کے دن تمہارے ہاتھ کے بنے ہُوئے دہی بڑے اور شامی کباب کھاؤں گا، اور میں اپنے چاند کے لیے یہ اہتمام تب ہی کر سکتی ہوں جب آسمان کا چاند طلوع ہو۔ ایمان سے اس وقت میں گھر پر ہوتی نا تو آدھا کام نمٹا چکی ہوتی اور جب وہ آتے تو جھٹ کباب تل کر اُن کے سامنے رکھ دیتی اور جب وہ اس سے لطف اُٹھا کر مجھے داد دیتے تو سمجھو عیدی تو مجھے مل ہی جاتی مگر ہائے

حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

”اس مسئلے کا ایک حل ہے کہ میرے پاس۔“ ایک محترمہ نے دانائی ظاہر کی، ”وہ کیا؟“ تمام خواتین نے یک زبان ہو کر پوچھا،“ جواباً محترمہ نے شانِ بے نیازی سے کہا، اتنے عذاب جھیلنے سے بہتر ہے کہ سب اپنا اپنا استعفیٰ پیش کر دو۔ میں تو آج ہی اپنا استعفیٰ پیش کر دوں گی، حد ہوتی ہے ظلم کی، یوں تو وقت بے وقت پارلر کے چکر لگائیں اور جب موقع ہے تب؟ اب عید کے دن نہ چہرے کی زیبائش ہو اور نہ ہی بالوں کی آرائش، میں تو باز آئی ایسے شوق سے۔ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ میرا تو ارمان پورا ہو گیا۔ بس عید کے بعد ایک پریس کانفرنس کر کے تمام خواتین کو پیغام دوں گی۔ جس شعبے میں چاہو دھڑلے سے اپنے قدم جماؤ مگر خبردار جو رویتِ ہلال کمیٹی میں شامل ہوئیں۔ ایمان سے منٹوں میں ارمانوں کا خون ہو جاتا ہے، مردوں کو کام ہی کیا ہوتا ہے؟ بیشک صبحِ کاذب کے وقت چاند کا اعلان کر کے گھر واپس جائیں۔ اف اللہ کیا بتاؤں چاند مجھے کتنا پیارا لگتا ہے لیکن چاند دیکھنے کے انتظار میں اپنی آرزوئیں مٹی میں ملتے نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی اپنے چاند کو خفا کرسکتی ہوں کہ اُن کی روشنی سے میرے دل میں اجالے ہی اجالے بکھر جاتے ہیں اور میں گنگناے لگتی ہوں۔

چشمِ تصور سے یہ منظر بھی دیکھیے!
ابھی خواتین کا اجلاس جاری ہوتا ہے کہ مرد حضرات کی ملی جلی صدائیں بلند ہوتی ہیں ”عید مبارک، چاند نظر آگیا۔“ یہ سنتے ہی خواتین کے مذاکرات نئے رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ ”اللہ کہاں ہے ہمیں بھی تو دکھائیے نا“ دل میں شوق کا طوفان چھپائے لپکتی ہوئی خواتین آگے بڑھتی ہیں اور مشتاق نظروں سے بے تابانہ آسمان کی وسعتوں میں چمکتے چاند کو دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتی ہیں، ”سنو تم کیا مانگ رہی ہو؟“ قریب کھڑی خاتون سرگوشی میں پوچھتی ہیں۔ میں نے تو یہی التجا کی ہے”اے عید کے چاند میرے چاند کو روٹھنے نہ دینا“ اور تم نے؟ اس وقت تو میں نے چاند کا شکریہ ادا کیا ہے وہ نمودار تو ہُوا، بس اب گھر کی جانب دوڑ لگاؤ اور پھر آناً فاناً تمام خواتین نے دوڑ لگائی۔ حد تو یہ ہے کہ عجلت میں میڈیا کے سامنے چاند کے اعلان کے لیے بھی نہیں رکیں کہ اب چہرہ اس قابل ہی کہاں رہا تھا۔ تھکی ماندی صورتیں دیکھ کر لوگ بور ہی ہوں گے۔ اور چاند بے بسی سے خواتین کی بے رخی پر دل مسوس کر رہ جائے گا کہ کتنی بے مروت ہیں ہر شے میں میرا جلوہ دیکھنے والیوں کو میری پروا بھی نہیں ہے اور خواتین امبر کے چاند کے شکوے سے بے نیاز دھرتی کے چاندوں کی جانب اپنی توجہ مرکوز رکھیں گی، اُن چاندوں کی جانب جنھیں دیکھ دیکھ کر وہ جیتی ہیں خواہ اُن سے رشتے اور تعلق کی نوعیت کچھ بھی ہو، وہ ہیں تو اُن کے چاند۔

(شائستہ زریں کی شگفتہ تحریر)

Comments

- Advertisement -