محرومؔ نے اپنا تخلّص خود ہی پسند کیا تھا جو ان کے فطری رجحان اور شعری مزاج کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا۔
”بلاشبہ میری طبعیت شروع ہی سے غم پسند واقع ہوئی ہے۔ اسکول کی کتابوں میں رقت آمیز مضامین پڑھ کر اکثر جماعت ہی میں آنسو نکل آتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بیس پچیس لڑکوں کی کلاس میں جب میں نے پہلی بار فسانۂ آزاد کا ایک مضمون ’محمود کا پھانسی پانا اور اس کے چھوٹے بچے کا بلبلانا‘ پڑھا تو میں اکیلا ہی ایسا طالب علم تھا جس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔
تلوک چند نے تخلص محرومؔ رکھ لیا تھا، لیکن اسے فال نیک نہیں سمجھا۔ چنانچہ کہتے ہیں:
”جب ہائی اسکول میں پہنچا اور "زمانہ” کانپور کے ایڈیٹر منشی دیا نرائن سے خط و کتابت ہوئی تو میں نے ان کو تخلص بدلنے کے متعلق اپنے ارادے سے مطلع کیا اور محرومؔ کے بجائے پروازؔ تخلص تجویز کیا۔ چند رباعیات بھی اس تخلص کے ساتھ اشاعت کے لیے بھیج دیں، لیکن انھوں نے اس تجویز کو رد کردیا۔“
ایک وقت ایسا آیا جب وہ اپنے تخلص محرومؔ پر فخر کرنے لگے۔
پاتے ہیں درد کی تاثیر اسی نام سے شعر
باعثِ فخر ہے محرومؔ مرا نام مجھے
( زینت اللہ جاوید کے قلم سے)