تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

"جانے دیجیے، یہ تصوف کا معاملہ ہے!”

ریڈیو پاکستان کے رائٹرز یونٹ میں چراغ حسن حسرت کی سربراہی میں احمد فراز بھی کام کرتے تھے۔

حسرت صاحب نے احمد فراز سے کہا کہ مولانا، داتا گنج بخش پر فیچر تیار کیجیے۔

احمد فراز نے فیچر لکھنے کی تیاری شروع کی۔ دوسرے دن حسرت صاحب نے پوچھا۔ مولانا، کچھ ہوا؟

احمد فراز بولے کہ جی ہاں کچھ ہوا تو ہے۔

یہ سن کر حسرت صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ سگریٹ کا لمبا کش لیا اور بولے۔

”مولانا جانے دیجیے۔ یہ تصوف کا معاملہ ہے اور آپ ٹھہرے ترقی پسند، آپ کا کیا اعتبار خدا کو خدا صاحب لکھ دیں گے۔

احمد فراز نے اس فیچر میں تو خدا کو خدا صاحب نہیں لکھا تھا، مگر اپنی شاعری میں وہ کچھ نہ کچھ تو کرتے ہوں گے کہ لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔

مولانا چراغ حسن حسرت عالم آدمی تھے۔ فارسی و اردو کلاسیکی ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ لفظوں کے پارکھ ۔ اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ ماضی میں اسم خدا اور اللہ کے ساتھ صاحب کا لفظ مستعمل رہا ہے۔ بس ان کا خیال ہوگا کہ اب اس لفظ کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے۔

(ممتاز ادیب انتظار حسین کی کتاب ”ملاقاتیں“ سے انتخاب)

Comments

- Advertisement -