تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

نواب شیدا بیگم کے نام جانِ‌ عالم کا رقعہ

ہندوستان میں‌ مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ساتھ مختلف مطیع اور خودمختار ریاستوں میں انگریزوں‌ کا بڑھتا ہوا عمل دخل اور نوابوں کی بے توقیری تک تاریخ کے اوراق بہت کچھ لکھتے ہیں جن میں بیگماتِ اودھ کے خطوط کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ آخری تاج دارِ اودھ واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ نامے ہیں‌ جو جلاوطنی کے عالم میں‌ واجد علی شاہ تک پہنچے اور ان کی جانب سے ارسال کیے گئے۔

یہاں ہم ایک ایسا ہی خط نقل کر رہے ہیں جو واجد علی شاہ کی طرف سے شیدا بیگم کو لکھا گیا تھا۔ اس خط کے القاب لائقِ توجہ ہیں۔ قدیم اردو میں‌ اس خط کا طرزِ تحریر رواں اور لطف انگیز ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ سطور ایک نواب کا اپنے حالات پر نوحہ بھی ہے۔ خط ملاحظہ کیجیے۔

بہ نام
نواب شیدا بیگم صاحبہ

مرگ سوجھے ہے آج کل مجھ کو
بے کلی سی نہیں ہے کل مجھ کو

مہرِ سپہر بے وفائی، ماہ سمائے دل ربائی، گوہرِ تاج آشنائی، جوہرِ شمشیرِ یکتائی! ہمیشہ خوش رہو!

معلوم ہو گیا ہمیں لیل و نہار سے
ایک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور آہ

معلوم ہوا اودھ میں کچھ بلوائی لوگ جمع ہوئے ہیں اور سرکار انگریزی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کم بختوں سے کہو ہم چپ چاپ چلے آئے تم لوگ کاہے کو دنگا مچا رہے ہو۔ میں یہاں بہت بیمار تھا، صفرہ کی تپ نے دق کر دیا تھا۔ آخر تبرید کے بعد صحت ہوئی۔ جس قدر نذر و نیاز مانی تھیں، وہ کی گئیں۔ جلسہ رات بھر رہا، ناچ گانا ہوتا رہا۔ کوئی چار گھڑی رات باقی ہو گی۔ غل پکار ہونے لگا۔ ہم غفلت میں پڑے تھے۔ آنکھ کھلتے ہی ہکّا بکّا رہ گئے۔ دیکھا کہ انگریزی فوج موج در موج ٹڈی دل چاروں طرف سے آ گئی۔ میں نے پوچھا یہ کیا غل ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا، علی نقی قید ہو گئے۔ مجھ کو غسل کی حاجت تھی۔ میں تو حمام میں چلا گیا۔ نہا کر فارغ ہوا کہ لاٹ صاحب کے سیکرٹری اومنٹن حاضر ہوئے اور کہنے لگے، میرے ساتھ چلیے۔ میں نے کہا، آخر کچھ سبب بتاؤ۔ کہنے لگے، گورنمنٹ کو کچھ شبہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا، میری طرف سے شبہ بے کار ہے۔ میں تو خود جھگڑوں سے دور بھاگتا ہوں۔ اس کشت و خون اور خلق خدا کے قتل و غارت کے سبب سے تو میں نے سلطنت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ میں بھلا اب کلکتہ میں کیا فساد کرا سکتا ہوں۔

انھوں نے کہا، مجھ کو صرف اتنا معلوم ہے کہ کچھ لوگ سلطنت کے شریک ہو کر فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، اچھا اگر انتظام کرنا ہے تو میرے چلنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے ہی مکان پر فوج مقرّر کر دو۔ انھوں نے کہا، مجھ کو جیسا حکم ملا ہے میں نے عرض کر دیا۔ بالآخر میں ساتھ چلنے پر تیّار ہوا۔ میرے رفقا بھی چلنے پر تیّار ہو گئے۔ سیکرٹری نے کہا، صرف آٹھ آدمی آپ کے ہمراہ چل سکتے ہیں۔ پھوپھا مجاہد الدّولہ، ذہانت الدّولہ، سیکرٹری صاحب اور میں ایک بگھی میں سوار ہو کر قلعہ میں آئے اور قید کر لیے گئے۔ میرے ساتھیوں میں ذوالفقار الدّولہ، فتح الدّولہ، خزانچی کاظم علی، سوار باقر علی، حیدر خاں کول، سردار جمال الدین چپراسی، شیخ امام علی حقّہ بردار، امیر بیگ خواص، ولی محمد مہتر، محمد شیر خاں گولہ انداز، کریم بخش سقّہ، حاجی قادر بخش کہار، امامی گاڑی پوچھنے والا، یہ قدیم ملازم نمک خوار تھے، زبردستی قید خانہ میں آ گئے۔

راحت سلطانہ خاصہ بردار، حسینی گلوری والی، محمدی خانم مغلانی، طبیب الدّولہ حکیم بھی ساتھ آیا۔ دیکھا دیکھی آیا تھا، گھبرا گیا اور کہنے لگا: خدا اس مصیبت سے نجات دے۔ میں نے بہت کچھ حق جتائے کہ تجھ کو بیس برس پالا ہے۔ مگر وہ اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا۔ جس قلعہ میں ہم قید کیے گئے تھے اس کو قلی باب کہتے ہیں۔

یہ خط کربلائے آب خاصہ بردار کے بھائی کے ہاتھ بھیج رہا ہوں۔

؎
ہوا ہے اب تو یہ نقشہ ترے بیمارِ ہجراں کا
کہ جس نے کھول کر منہ اس کا دیکھا بس وہیں ڈھانکا

جانِ عالم اختر

Comments

- Advertisement -