تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

ونگاری ماتھائی: سیاہ فام خاتون جسے درختوں کی ماں‌ کہا جاتا ہے

وَنگاری ماتھائی کو دنیا میں فطرت کی دوست اور تحفظِ ماحول کی سرگرم کارکن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔ انھیں درختوں‌ کی ماں بھی کہا جاتا ہے، سرطان کے مرض میں‌ مبتلا ونگاری ماتھائی 2011ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔

کینیا کی وَنگاری ماتھائی پہلی افریقی نوبیل انعام یافتہ خاتون تھیں۔ انھوں نے ایک پسماندہ ملک کے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی لیکن تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ وہ ایک ایسے کام کی بدولت دنیا میں‌ ممتاز ہوئیں جو زمین اور انسانوں کی بقا اور بھلائی کے لیے ضروری تھا۔ 71 برس کی عمر میں‌ وفات پانے والی ونگاری ماتھائی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کینیا کی سب سے مشہور اور قابلِ احترام خاتون تھیں۔ انھوں‌ نے تحفظِ ماحول کی غیر سرکاری تنظیم گرین بیلٹ موومنٹ کی بنیاد رکھی تھی جس کے ذریعے وہ تین دہائیوں تک درخت لگانے اور ماحول کی حفاظت کے لیے سرگرم رہیں۔ انھیں‌ 2004ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

ونگاری ماتھائی نے اپنے ملک میں‌ غریب عورتوں کو اپنی تنظیم کا حصہ بنا کر لگ بھگ تیس ملین درخت لگائے۔ وہ کمرشل بنیادوں‌ پر درختوں کی کٹائی اور سبزے کی پامالی کے جواب میں‌ ویران اور قابلِ کاشت رقبے پر درخت لگانے اور مختلف پیڑ پودوں کی افزائش میں‌ مصروف رہیں۔ انھیں‌ ماحول مخالف سرگرمیوں‌ اور فطرت کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کے راستے میں‌ ایک رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔

ونگاری ماتھائی نے اپنی زندگی کے حالات اور اپنی جدوجہد کو اپنی کتاب ’ناقابلِ شکست‘ میں‌ رقم کیا ہے، جس سے ہم یہ پارے آپ کے لیے نقل کررہے ہیں، اس کے مترجم بُش احمد ہیں۔

ونگاری ماتھائی لکھتی ہیں، میری عُمر سات آٹھ سال تھی جب ہم نائیری کے قصبے میں واپس آئے۔ چند دنوں کے بعد میرے بھائی دیَریتُو نے ماں سے پوچھا، ’’کیا وجہ ہے کہ ونگاری ہماری طرح اسکول نہیں جاتی؟‘‘

دیَریتُو اس وقت تیرہ سال کا تھا اور ہائی اسکول جانا شروع کیا تھا۔ اس کا سوال زیادہ عجیب و غریب نہیں تھا۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا واقعہ ہو چکا تھا۔ میرا ماموں ’’کامُوں یا‘‘ اپنے سب بچوں کو اسکول بھیج رہا تھا جن میں ایک بیٹی بھی شامل تھی۔ لیکن یہ عام رواج نہیں تھا۔ میری ماں نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر جواب دیا، ’’کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسکول نہ جائے۔‘‘

اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا، لیکن مجھے شک ہے کہ میری ماں نے ماموں سے مشورہ کیا ہوگا۔ ہمارے باپ کی غیر حاضری کے دوران ماموں ہی خاندان کے سرپرست کے طور پر موجود تھے۔ اُنہوں نے ضرور ہامی بھری ہو گی کیوں کہ فیصلہ کیا گیا کہ میں اپنے کزنز کے ساتھ پرائمری اسکول جاؤں گی۔ میری ماں کے لیے یہ ایک بھاری فیصلہ تھا۔ میری چھوٹی بہن مونیکا پیدا ہو چکی تھی اور ہماری ماں نے مجھ سے چھوٹے تین بچوں کی نگہداشت کرنی تھی۔ اسکول کی فیس کا بھی کچھ کرنا تھا۔ اس وقت کے اسکول کی ایک ٹرم کی فیس صرف ڈیڑھ روپیہ تھی جو ہماری دیہاتی فیملی کے لیے بہت مہنگی تھی۔

میری ماں آسانی سے کہہ سکتی تھی، ’’ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ گھر میں مجھے ونگاری کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ لڑکی کو تعلیم دلانے کا کیا فائدہ؟‘‘ مگر میری ماں نے میرے بھائی کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا۔

میں بہت شکر گزار ہوں کہ میری ماں نے یہ فیصلہ کیا، کیوں کہ یہ فیصلہ میں خود سے نہ کر پاتی۔ اور اس نے میری زندگی بدل دی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر دیَریتُو نے یہ سوال نہ پُوچھا ہوتا اور میری ماں نے وہ جواب نہ دیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ آج تک مجھے نہیں معلوم کہ میری تعلیم کے پیسے کہاں سے آئے، لیکن غالباً میری ماں نے گاؤں میں دوسرے لوگوں کی زمینوں پر کھیتی باڑی کی مزدوری میں وہ پیسے کمائے ہوں گے۔ ان دنوں ایک دن کی دیہاڑی سے ساٹھ پیسے کمائے جا سکتے تھے۔

پرائمری اسکول میں میرا پہلا دن مجھے آج تک یاد ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسکول پہنچنے سے پہلے جو کچھ ہوا وہ میری یادداشت میں کھبا ہوا ہے۔ میرے پاس ایک سلیٹ تھی، چند اورق پر مشتمل ایک کاپی اور ایک پنسل تھی اور کسی جانور کی کھال سے بنا ایک سادہ سا تھیلا۔ بعد میں میرے ماموں نے مجھے سوتی کپڑے سے بنا ایک تھیلا عطا کر دیا تھا۔ پہلے ہی دن آٹھ سال کی بچّی کے لیے تین میل اکیلی چل کر اسکول جانا مشکل یا غیرمعمولی نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن میرا کزن جونوتھن جس کو سب جونو کہتے تھے وہ صبح سویرے مجھے لینے آ گیا۔ عمر میں وہ مجھ سے تھوڑا ہی بڑا تھا اور لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔

ننگے پاؤں ہم دونوں پہاڑی پر چڑھتے کچے راستے پر چل رہے تھے جو اسکول کے احاطے کی طرف جاتا تھا کہ میرا کزن اچانک رُک کر راستے کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے اشارے سے بُلا کر ساتھ بٹھایا اور بولا۔ ’’کیا تم لکھنا پڑھنا جانتی ہو؟‘‘

’’نہیں! میں نہیں جانتی۔‘‘میں نے سر ہلاتے جواب دیا۔ ’’لیکن کیا تم کم از کم لکھ تو سکتی ہو نا؟‘‘ اس نے تنگ آ کر چھوٹی کزن کو متأثر کرنے کی اپنی بہترین کوشش کی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں لکھ بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے تو واقعی یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ لکھائی کیا بلا ہوتی ہے لیکن میں سارا راز فاش نہیں کرنا چاہتی تھی۔

’’اچھا!‘‘ جونو پُراسرار لہجے میں بولا، ’’میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘ مجھے اب تجسس ہوا۔

’’میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ لکھتے کیسے ہیں!‘‘ جونو نے اپنی کاپی نکالی اور اس پر کریون نما پنسل سے کچھ لکھا۔ لکھنے سے پہلے اس نے پنسل کو اپنی زبان سے اچھی طرح تَر کیا تاکہ لکھا جا سکے۔ اور یقین کیجیے کہ اس نے اس پنسل کو چاٹنے کا ایسا مظاہرہ کیا جیسے جادوگر شعبدہ دکھاتے کرتے ہیں۔ پھر اس نے جو لکھا تھا وہ میرے سامنے پیش کیا۔ ظاہر ہے جو کچھ لکھا گیا تھا مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آیا۔ لیکن میں اس کی مہارت سے بہت متأثر ہوئی۔

اس واقعے کے بعد ہم نے اسکول کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ دن میں نہیں بھولی۔ پڑھنے لکھنے پر مجھے آمادہ کرنے کا یہ بہترین طریقہ تھا۔ ہائے میری کتنی خواہش تھی کہ میں لکھ سکوں اور پھر اسے مٹا بھی سکوں۔ جب بالآخر میں نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا میں کبھی رکی نہیں۔ کیونکہ میں پڑھ سکتی تھی، لکھ سکتی تھی اور اسے مٹا سکتی تھی۔

ہمارا اسکول اس زمانے کے اسکولوں جیسا تھا۔ اس کی دیواریں گارے کی اور فرش مٹی کا تھا۔ ہر جمعے والے دن ہم اپنے اپنے گھروں کے چولھے سے راکھ لے کر آتے تھے اور فرش پر بچھاتے تھے۔ پھر قریبی ندّی سے جا کر پانی بھر کر لاتے تھے اور راکھ پر پانی چھڑک کر فرش کو رگڑ رگڑ کر جھاڑو سے صاف کرتے تھے۔ اس زمانے میں فرش صاف کرنے کا یہ ایک عام طریقہ تھا جس سے کمرے میں گَرد بھی جمع نہیں ہوتی تھی اور پسُّو جیسے حشراتُ الارض بھی تنگ نہیں کرتے تھے۔ جون سے اگست کے مہینوں میں اس اُونچے علاقے میں سردی اور دھند ہوتی تھی اور ہمارا اسکول انتہائی ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ ان دنوں ہمارے اساتذہ آگ جلا دیتے تھے تاکہ ہم اپنے ہاتھوں کو گرم کر کے لکھ سکیں۔ آج کل یہی سطح مرتفع اب اتنی سرد نہیں ہوتی۔ شاید گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ہو گی۔

Comments

- Advertisement -