ملک کی سرحد کے اُس پار دشمن کی فوج اگر مستعد نظر آئے، اس کے جوان چاق و چوبند اور جدید اسلحے سے لیس ہوں تو یہ ان کی پیشہ ورانہ تربیت اور ان میں احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ان کے نظم و ضبط کی علامت بھی ہوتا ہے، مگر جب وہ عددی برتری کے گھمنڈ اور ہتھیاروں کے غرور میں اُس سپاہ کو للکار بیٹھے جو فقط شہادت کو مطلوب و مقصودِ مومن سمجھتی ہو تو بدترین شکست اس کا مقدر بنتی ہے۔
پاکستان کی جانب سے جنگِ ستمبر میں ایسی کئی مثالیں دنیا کے سامنے آئیں جب کہ عوام نے اگلے مورچوں پر اپنی افواج اور اندرونِ ملک شہروں، قصبوں اور دیہات میں اداروں اور انتظامیہ کا مختلف معاملات میں خوب ہاتھ بٹایا۔ خاص طور پر خواتین نے۔ یہاں ہم اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب شاہد احمد دہلوی کی ایک تحریر آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ 65ء کی جنگ میں پاکستانی عورتوں نے کس جوش و جذبے سے اپنا کردار ادا کیا۔
وہ لکھتے ہیں: "پاکستانی خواتین جنگ کے زمانے میں اس قدر چاق و چوبند ہوگئیں کہ رفاہِ عام کے کاموں کے علاوہ انھوں نے شہری دفاع کی ٹریننگ لی، فوری امداد کی تربیت حاصل کی۔
رائفل اور پستول چلانے کی مشق کی۔ زخمیوں کی مرہم پٹّی کرنی سیکھی۔ نرسنگ کے لیے اسپتالوں میں جانے لگیں۔ ہر لڑکی اور عورت کے ہاتھ میں سلائیاں اور اُون نظر آنے لگا۔ فوجی بھائیوں کے لیے انھوں نے کئی کئی سوئیٹر اور موزے بُنے۔
اُن کے لیے چندہ جمع کیا۔ تحفے اکٹھے کر کے بھیجے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ پاکستانی خواتین مردوں کے دوش بہ دوش کام کرنے لگیں۔
انھوں نے اپنا بناؤ سنگھار چھوڑ دیا۔ آرائش کی چیزیں خریدنی چھوڑ دیں اور جو بچت اس طرح ہوئی اسے دفاعی فنڈ میں دے دیا۔ مینا بازار سجائے گئے اور زنانہ مشاعرے کیے گئے۔ زنانہ کالجوں میں ڈرامے کیے گئے اور ان کی آمدنی کشمیر کے مہاجروں کے لیے بھیجی گئی۔”