تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

ہوا کو نچوڑ کر پانی کا حصول، سائنسدانوں نے خوشخبری سنادی

اس وقت دنیا بھر میں دو ارب 10 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ماہرین کا اندازہ ہے کہ جس رفتار سے پانی کی طلب بڑھ رہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق سال2030 تک طلب اور رسد کا فرق 40 فی صد سے بڑھ جائے گا اور پانی کی قلت ایک سنگین عالمی مسئلہ بن جائے گی۔

آپ کے لیے یہ بات شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ زمین پر جھیلوں، دریاؤں اور چشموں میں جتنا میٹھا پانی موجود ہے، اس کے دس فی صد حصے کے مساوی پانی ہوا اپنے ساتھ اٹھائے پھرتی ہے۔

Squeezing water from the air - International WaterCentre

سائنسی اعداد و شمار کے مطابق ہوا میں موجود پانی کی یہ مقدار 13 ٹریلین لٹر سے زیادہ ہے، یہ پانی شفاف اور کثافتوں سے پاک ہوتا ہے اور اسے پینے کے لیے فلٹر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

ٹیکنالوجی میں ہر روز جدٹ اور وسعت پیدا ہورہی ہے جس سے انسان کے روزمرہ کاموں میں آسانیوں سمیت مختلف قسم کی تحقیقات میں بھی مدد ملتی ہے۔

ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے ایک پراثر مقالہ پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق ہوا میں موجود پانی کو نچوڑ کر پینے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

صحرائی علاقوں میں لوگوں کو پانی کی تلاش میں میلوں پیدا چلنا پڑتا ہے۔

اس حوالے سے امریکی ادارے کے ماہرین نے ان ٹیکنالوجیز کی تمام اقسام، مختلف خطّوں میں موسمی حالات اور ہوا میں نمی کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ اگر موجودہ ٹیکنالوجی کو درست طور پر رائج کیا جائے تو ساری دنیا میں کم از کم ایک ارب افراد کےلیے پینے کے پانی کا انتظام ہوسکتا ہے۔

ان ٹیکنالوجیز میں مزید بہتری کی گنجائش ہے لیکن اب بھی یہ اتنی پختہ ہوچکی ہیں کہ ہوا میں صرف 30 فیصد نمی پر بھی مناسب مقدار میں پانی بنا سکتی ہیں۔

خیال رہے کہ دنیا بھر میں 2 ارب 20 کروڑ افراد کو پانی کی قلت کا سامنا ہے جن کی بڑی تعداد زیریں افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکا میں رہائش پذیر ہے۔

Comments

- Advertisement -