ورلڈ کپ میں سری لنکا کے خلاف پاکستان کے لیے مرد بحران کا کردار ادا کرنے والے محمد رضوان کو کئی بار کریمز پڑے ایسا ہو تو کیا ہوتا ہے سابق کرکٹرز نے اہم تجزیہ اور تجربات پیش کیے۔
ورلڈ کپ 2023 میں گزشتہ روز حیدرآباد دکن کے راجیو گاندھی کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان نے 345 رنز کا ہدف حاصل کرکے نیا ریکارڈ بنا لیا۔ اس میچ میں ایک موقع پر سنچری میکر عبداللہ شفیق کے آؤٹ ہونے کے بعد کریز پر 80 رنز کے ساتھ موجود محمد رضوان کے اچانک کمر کی تکلیف اور پیر میں کریمز پڑنے سے شائقین کرکٹ اور پاکستانی ڈریسنگ روم میں تشویش کی لہر پیدا ہوئی۔
محمد رضوان نے شدید تکلیف کی حالت میں بھی 131 رنز کی نا قابل شکست میچ وننگ کھیلی تاہم اس دوران وہ کئی مواقع پر انتہائی تکلیف میں دکھائی دیے۔ پہلے ایک وائیڈ بال کو کھیلنے کے دوران ان کی کمر میں تکلیف ہوئی۔ اگلے ہی اوور میں چھکا لگانے کے دوران ان کے پیر میں کریمز پڑے۔ پھر ان کے پیروں کو کئی بار گیند نے ہٹ کیا لیکن کوئی بھی تکلیف ان کے کرکٹنگ جذبے کو شکست نہ دے سکی۔
اس صورتحال پر اے اسپورٹس کے پروگرام ’دی پویلین‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق لیجنڈ فاسٹ بولر وسیم اکرم نے کہا کہ کریمز پڑتے ہیں اور جب بھی پڑتے ہیں تو ٹھیک ٹھاک درد ہوتا ہے۔ اس صورت میں کسی بھی بیٹر کے لیے اپنی اننگ جاری رکھنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ اتنی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے کہ اس کی توجہ کھیل سے ہٹ کر تکلیف کی جانب ہو جاتی ہے اس صورتحال میں سب سے آسان طریقہ گراؤنڈ سے باہر جانا ہی ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نئے نئے کرکٹ میں آئے تھے تو ہمیں بھی کریمز پڑتے تھے لیکن اس وقت آج کی طرح بہت ساری سہولتیں نہ تھیں حتیٰ کہ ہمیں فزیو تک دستیاب نہیں ہوتا تھا بلکہ ہمیں یہ مشورہ دیا جاتا تھا کہ کریمز پڑیں تو پانی میں نمک ڈال کر پی لیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد پتہ چلا کہ انتہائی غلط طریقہ اور مشورہ ہوتا تھا۔
شعیب ملک نے کہا کہ واقعی کریمز جب پڑتے ہیں تو بیٹر بیٹنگ وغیرہ سب بھول جاتے ہیں چاہے وہ 80 پلس پر ہی کیوں بیٹنگ نہ کر رہے ہوں۔ لیکن اچھی بات کہ محمد رضوان کے کریمز فوری چلے گئے۔ اس موقع پر انہوں نے وکٹ کیپر بیٹر کی کمٹمنٹ کی بھی تعریف کی۔
سابق کپتان نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہو سکتا کہ ہے کہ پاکستانی ڈریسنگ روم میں کوئی ایسی چیز یا جیل وغیرہ آ گئے ہوں جس سے کریمز فوری چلے جاتے ہیں۔
معین خان نے بھی اس حوالے سے ماضی کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ شارجہ کے میدان میں زاہد فضل 98 رنز پر بیٹنگ کر رہے تھے کہ انہیں اتنے خطرناک کریمز پڑے کہ وہ سنچری مکمل کرنے کے لیے دو رنز تک نہ بنا سکے اور اسی اسکور پر میدان سے باہر جانے پر مجبور ہوئے۔