پاکستان میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے پکڑے جانے اور اعترافی بیان کے بعد پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے جس کے بعد بھارتی حکومت نے پھانسی رکوانے کے لیے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کر لیا ہے جہاں مقدمے کی سماعت جاری ہے اور دونوں طرفین کے وکلاء نے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔
اس مقدمے کی سماعت کی وجہ سے عالمی عدالت انصاف نے عام افرد کی توجہ حاصل کر لی ہے جو اب تک اس کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے اور جاننا چاہتے ہیں کہ عالمی عدالت کیا ہے اور یہ کس طرح کام کرتی ہے۔
اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ ان بنیادی سوالوں کا جواب حاصل کرسکتے ہیں جو آج کل ایک عام انسان کے زہن میں پیدا ہو رہے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کا مختصر تعارف
عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کے مرکزی عدالتی نظام کا بنیادی جز ہے جس کا بنیادی مقصد دو ممالک کے درمیان قانونی قضیے کو حل کرانا ہے اس کا قیام 1945 میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت عمل میں لایا گیا تاہم بین الاقوامی عدالت انصاف کو بین الاقوامی عدالت برائے فوجداری سے علیحدہ سمجھا جائے۔
عالمی عدالت انصاف کا آغاز
عالمی عدالت انصاف نے اپنے قیام کے ایک سال بعد 1946 میں کام کا آغاز کیا یہ عدالت امن محل، ہالینڈ کے شہر دا ہیگ میں قائم ہے یہ عدالت عالمی اداروں، اجسام اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے دائر کردہ قانونی و تکنیکی معاملات پر انصاف فراہم کرتا ہے۔
یہ عدالت 15 جج صاحبان پر مشتمل ہے
ریاستوں کے درمیان تصفیے کے حل کے لیے قائم کی گئی یہ عدالت 15 جج صاحبان پر مشتمل ہیں جو الگ الگ رکن ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور نو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں، عدالت کے موجودہ سربراہ کا تعلق فرانس سے جب کہ نائب صدر کا تعلق صومالیہ سے ہے جب کہ بقیہ ممبران کا تعلق برطانیہ، آسٹریلیا چین ،جاپان اور بھارت سمیت 13 ممالک سے ہے۔
عدالتی کارروائی انگریزی یا فرانسیسی زبان میں ہوتی ہے
عدالت کی سرکاری زبانیں انگریزی اور فرانسیسی ہیں لہذا یہاں پیش ہونے والے مقدمات کی سماعت انہی دو زبانوں میں ہو سکتی ہے عمومی طور پر ممالک انگریزی زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔
عدالت سے کون رجوع کر سکتا ہے؟
عالمی عدالت انصاف صرف ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والی قانونی تصفیے کا حل پیش کرتی ہے اس لیے یہاں صرف ریاستیں ہی مقدمہ لا سکتی ہیں اور کوئی انفرادی نوعیت کا کیس آتا ہے تو وہ بھی ریاست کی جانب سے پیش ہونا ضروری ہے بہ صور ت دیگر وہ عدالت کے دائرے اختیار سے باہر ہوگا۔
اس طرح افراد، غیر سرکاری تنظیموں، کارپوریشنز یا دیگر نجی تنظیموں کی جانب سے دائر کیے جانے والے مقدموں کو سننا عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں تاہم ریاست کسی ایک فرد کا کیس لے کر دوسری ریاست کے خلاف سماعت کی درخواست لا سکتی ہے اور ایسی صورت میں یہ مقدمہ دو ریاستوں کے درمیان ہو جاتا ہے۔
عدالت کا دائرہ اختیار
عدالت خود سے کسی مسئلے پر ایکشن نہیں لے سکتی اس لیے اس عدالت میں کسی مقدمے کی سماعت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ریاست خود سے عدالت سے رجوع کریں اسی طرح یہ عدالت نہ تو تحقیقات کا حق رکھتی ہے اور نہ خود مختار ریاستوں کے اقدام پر سماعت کر سکتی ہے۔
فل بنچ کے بجائے چند رکنی بنچ بھی سماعت کرسکتا ہے
عالمی عدالت انصاف یوں تو 15 ججوں پر مشتمل ہے اور تمام اراکین مشترکہ طور پر کسی بھی مقدمے کی سماعت کر سکتے ہیں تاہم آرٹیکل 26-29 اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے لیے چار سے پانچ رکن ججوں پر مشتمل بنچ بنایا جائے جو اپنے چیمبر میں کیس کی سماعت کر سکتے ہیں۔
عدالتی حکم کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی
اقوام متحدہ کے قانون 94 کے تحت عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا ہے جس پر عمل درآمد کرانا لازمی ہے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکتی ہے تاہم کوئی بھی فریق فیصلے کے مطلب یا دائرعہ کار کو چیلینج کرسکتا ہے جس کی عدالت تشریح پیش کرسکتا ہے۔
نئے شواہد کی بنیاد پر نظر ثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے
عدالتی فیصلے کے بعد اگر ایسے حقائق سامنے آجا تے ہیں جو پہلے عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور جس سے عدالتی فیصلے پر اثر پڑ سکتا ہے تو دونوں فریقین میں سے کوئی بھی فیصلے پر نظر ثانی کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔