تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

کرونا وائرس کی ڈیلٹا قسم کس حد تک خطرناک ہے؟

ڈیلٹا ویرینٹ کرونا وائرس کی ایسی نئی قسم ہے کہ جو اس وقت 80 سے زیادہ ممالک تک پھیل چکی ہے البتہ یہ پہلی بار بھارت میں دریافت ہوا تھا اور عالمی ادارہ صحت نے اسے ڈیلٹا ویرینٹ کا نام دیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے کیونکہ اس میں اتنی تبدیلی آگئی ہے کہ یہ انسانی جسم کے خلیات کو زیادہ گرفت میں لے لیتا ہے۔

یہی ڈیلٹا ویرینٹ تھا کہ جو بھارت میں وبا کی دوسری مہلک لہر کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، جس میں کئی دنوں تک روزانہ 4 لاکھ مریض سامنے آتے رہے اور ہلاک افراد کی تعداد بھی 4 ہزار مریض روزانہ تک پہنچی۔

اب یہ ویرینٹ دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے اور گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی خدشے کا حامل ویرینٹ قرار دیا تھا۔ بھارت میں تو یہ ترقی پاتا ہوا ڈیلٹا پلس بن چکا ہے اور اس سے سخت خطرہ لاحق ہے۔

برطانیہ میں اس وقت کرونا وائرس کے نئے متاثرین میں سے 90 فیصد ڈیلٹا ویرینٹ کے شکار ہیں جبکہ امریکا میں ایسے لوگوں کی تعداد 20 فیصد ہے۔ البتہ حکام کا کہنا ہے کہ امریکا میں بھی یہ سب سے نمایاں قسم بن سکتا ہے۔

اس وقت تقریباً ہر امریکی ریاست میں ڈیلٹا ویرینٹ کے کیس موجود ہیں بلکہ ہر 5 میں سے ایک نیا کرونا وائرس کیس اسی ویرینٹ کا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا کی نصف آبادی کو ابھی ویکسین نہیں لگی، اس نئے ویرینٹ کی آمد کی وجہ سے حکام پریشان ہیں کہ آئندہ خزاں اور سردیوں میں مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

جنوبی بھارت کے شہر ویلور میں کرسچن میڈیکل کالج میں وائرس پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جیکب جان کہتے ہیں کہ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ سے لوگ زیادہ بیمار پڑ رہے ہیں یا نہیں، اس حوالے سے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔

یہ ویرینٹ ویکسین کے خلاف مزاحمت تو رکھتا ہے لیکن پھر بھی ویکسین اس کے خلاف کافی حد تک مؤثر نظر آئی ہے۔ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ دستیاب ویکسین ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف بھی کام کرتی ہے، جیسا کہ انگلینڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسٹرا زینیکا اور فائزر بائیو این ٹیک کی ویکسینز کے دونوں ٹیکے الفا ویرینٹ کے مقابلے میں ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف بھی کسی حد تک مؤثر ہیں۔

اگر دونوں ٹیکے لگوا لیے جائیں تو کافی حد تک ڈیلٹا ویرینٹ سے بچا جا سکتا ہے، البتہ ایک ٹیکا لگوانے والوں میں یہ شرح ذرا کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کا عمل مکمل کرنا ضروری ہے اور اسی لیے وہ دنیا بھر میں ویکسین کی دستیابی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔

لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں ڈیلٹا ویرینٹ سے اب تک جو اموات ہوئی ہیں، ان میں سے ایک تہائی سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ویکسین کے دونوں ٹیکے لگ چکے تھے اور اگر ایک ٹیکا لگوانے والوں کو دیکھا جائے تو مرنے والوں میں ان کی تعداد تقریباً دو تہائی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ڈیلٹا ویرینٹ کتنا خطرناک ہے اور ماہرین کی تمام تر توقعات کے باوجود ویکسین اس کے خلاف اتنی مؤثر نظر نہیں آتی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی ویکسین 100 فیصد مؤثر نہیں، پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق ویکسین لگوانے سے کووِڈ 19 سے اموات کے خطرے کو 95 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کا انحصار عمر پر بھی ہے جیسا کہ صرف انگلینڈ میں ڈیلٹا ویرینٹ سے جن لوگوں کی اموات ہوئی ہیں ان میں سے ایک تہائی 50 سال سے زیادہ عمر کے ایسے افراد ہیں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔

Comments

- Advertisement -