تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

افریقہ میں رنگ گورا کرنے والی کریموں سے اسکن کینسر پھیلنے لگا

دنیا بھر میں رنگ گورا کرنے والی کریمز خواتین میں بے حد مقبول ہیں تاہم وقتاً فوقتاً ان کریمز کے نقصانات سامنے آتے رہتے ہیں، حال ہی میں کئی افریقی ممالک میں ایسی کریمز کے استعمال سے جلد کے کینسر کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

اپنے چہرے کو سورج کی تیز شعاعوں سے بچانے کے لیے بڑے ہیٹ کا استعمال کرنے والی افریقی ملک کیمرون کی 63 سالہ جین اب جلد کے کینسر کی تشخیص کے بعد جلد کو گورا کرنے والی مصنوعات استعمال کرنے پر پچھتا رہی ہیں۔

جین کیمرون کی ان خواتین میں سے ای ہیں جنہوں نے ایسی متنازع مصنوعات کا استعمال کیا جن پر سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد پابندی لگ چکی ہے۔

دارالحکومت یاؤندے میں اس طرح کی مصنوعات فروخت کرنے والی ایک خاتون دکان دار کا کہنا ہے کہ جب لوگ میری طرف دیکھتے ہیں تو مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔

دوسری جانب 5 مہینوں میں چہرے پر ایک زخم کے بڑھنے کے بعد جین ایک ڈاکٹر کے پاس گئیں، جس نے ان میں کینسر کی تشخیص کی، ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ انہیں کینسر 40 برس سے جلد کو گورا والی مصنوعات کے استعمال سے ہوا ہے۔

جین جیسے کروڑوں افراد اس دنیا میں ہیں جو رنگت گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔

کیمرون ڈرمٹالوجی سوسائٹی کے مطابق سنہ 2019 میں اقتصادی دارالحکومت ڈوالا کے تقریباً 30 فیصد رہائشیوں اور اسکول کی ایک چوتھائی لڑکیوں نے رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کیا۔

20 سالہ طالب علم اینیٹ جیسے کچھ افراد کے لیے ایسی مصنوعات کے اثرات کافی نقصان دہ ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے چہرے پر سرخ دھبے پڑ گئے ہیں، جلد چھیل رہی ہے اور جل رہی ہے۔ سورج کی تیز روشنی میں میرا چہرہ گرم ہو جاتا ہے اور مجھے رکنا پڑتا ہے۔

وائٹ ناؤ اور سپر وائٹ جیسے ناموں والی مصنوعات کو فوری طور پر دکان کی شیلفوں پر ان کی پیکجنگ پر آویزاں صاف رنگت کی خواتین کی تصویروں سے پہچانا جا سکتا ہے۔

یہ ہنگامہ موسم گرما میں اس وقت شروع ہوا جب سوشل میڈیا صارفین نے حزب اختلاف کی رکن پارلیمنٹ نورین فوٹسنگ کی رنگ گورا کرنے والی مصنوعات فروخت کرنے والی کمپنی پر تنقید کی۔

عموماً بہت ساری مصنوعات کا سائنسی طور پر کبھی تجزبہ نہیں کیا گیا، ان میں خطرناک سطح کے کیمیکل ہوتے ہیں جو میلانین کی پیداوار کو روکتے ہیں، یہ مادہ سورج کی گرمی سے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔

ان کیمیکلز میں سے ایک ہائیڈروکوئنون ہے، جس پر یورپی یونین نے سنہ 2001 میں کینسر اور جینیاتی تغیرات کے خطرے کی وجہ سے پابندی عائد کی تھی۔

کیمرون کی وزارت صحت نے رواں برس 19 اگست کو کاسمیٹک اور ذاتی حفظان صحت سے متعلق ایسی مصنوعات کی درآمد، پیداوار اور تقسیم پر پابندی عائد کر دی تھی، جن میں ہائیڈروکوئنون اور مرکری جیسے خطرناک مادے ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق رنگ گورا کرنے والی مصنوعات عام طور پر بہت سے افریقی، ایشیائی اور کیریبیئن ممالک میں خواتین اور مرد دونوں ہی استعمال کرتے ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا میں سیاہ رنگت والے افراد بھی ایسی مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔

خوفناک نتائج کے باوجود مرد اور خواتین اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ ان مصنوعات کے استعمال کے بعد وہ مزید خوبصورت ہو جائیں گے۔

Comments

- Advertisement -