لاہور: پاکستانی فلم، ریڈیو اور ٹی وی انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے اداکار علی اعجاز آج ہم سب کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گئے۔
آپ گزشتہ کئی برس سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے تاہم گزشتہ دو روز قبل جو آپ کو دل کا دورہ پڑا وہ جان لیوا ثابت ہوا اور آپ 77 برس کی عمر میں دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئے۔
لاہور میں سن 1941 میں پیدا ہونے والے علی اعجاز نے فلمی کیریئر کا آغاز سن 1961 میں فلم ’انسانیت‘ سے کیا، بعد ازاں آپ نے متعدد فلموں میں کام کیا تاہم ’سالا صاحب‘ اور سن 1979 میں پیش ہونے والی ’دبئی چلو‘ دو ایسی فلمیں تھیں جس کے بعد آپ نے ترقی کی منازل کو طے کرنا شروع کیا۔
دوسری طرف آپ نے ڈرامہ انڈسٹری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا بطور مزاحیہ اداکار منوایا، خواجہ اینڈ سنز، کھوجی اور شیدا ٹلی میں آپ کا قبل ذکر کردار رہا جسے کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھیں: فلم اور ٹی وی کے نامور اداکار علی اعجاز انتقال کرگئے
آپ نے انگنہت پنجابی فلموں میں بھی کام کیا جن میں ’مفت، برا، دادا استاد، پیار دا بدلہ، یملا جٹ، بدنالوں بدنام برا، سادھو اور شیطان، لیلیٰ مجنوں، سدھا رستہ، بادل، مسٹر افلاطون، نوکرتے مالک، باؤجی، اندھیر نگری، چور مچائے شور، بھروسہ، عشق سمندر و دیگر نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔
دو مزاحیہ اداکار ’ننھا اور علی اعجاز‘ کی جوڑی نے سن 1980 کی دہائی میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔
شوبز انڈسٹری میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے آپ کو 14 اگست 1993 میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے ایوارڈ سے نوازا، علاوہ ازیں آپ کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
فلمی کیریئر کے دوران آپ نے تقریباً 89 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، کردار چاہے مزاحیہ ہو یا سنجیدہ آپ نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا ہر میدان میں منوایا اور شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔
آپ نے معمر شہریوں کے حقوق کے لیے اپنے نام سے ایک فاؤنڈیشن بھی کھولی جو بزرگوں کی رہائش، طعام و قیام کا بندوبست کرتی ہے۔
علی اعجاز کا لاہور کے مقامی قبرستان میں سیکڑوں سوگوران کی آہوں سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا، آپ نے سوگواران میں بیوہ اور 2 بیٹے چھوڑے جو بیرونِ ملک مقیم ہیں۔