تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

ہم نے اب تک زمین پر ارتقا کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق ہمارے اجداد، ہم سے ملتے جلتے کچھ جانور تھے جیسے بندر۔ ہم ان کی جدید ترین شکل ہیں۔

زمین پر موجود زیادہ تر جانداروں کے پاس دم ہے، جیسے مچھلیاں، پرندے اور رینگنے والے جانور۔ بندروں کی کچھ اقسام بھی دم رکھتی ہے۔ لیکن انسانوں کی دم نہیں، تو اس کی کیا وجہ ہے؟

دم دراصل 50 کروڑ سال قبل مختلف جانداروں میں منظر عام پر آنا شروع ہوئی۔ تب سے اب تک یہ کئی کاموں کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ جیسے چھپکلی کی ایک قسم گیکوس دم میں چربی محفوظ کرتی ہے۔

پرندے ہوا کے درمیان سے گزرنے کے لیے دم کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سانپ کی ایک قسم ریٹل اسنیک اپنی دم سے شکاریوں کو ڈراتے ہیں۔ دوسری طرف ممالیہ جانوروں کی دم کا سب سے بڑا مقصد ان کا جسمانی توازن برقرار رکھنا ہے۔

اگر آپ زمین پر زندگی کے ارتقا کے بارے میں مطالعہ کریں تو آپ صرف انسان ہی نہیں، بلکہ انسانوں سے ملتے جلتے، اور ارتقائی طور پر انسان کے قریب جانوروں میں بھی دم غائب پائیں گے۔ جیسے گوریلا، چمپینزی یا بن مانس۔

اور یہ دم کسی کے پاس کیوں ہے اور کسی کے پاس کیوں نہیں، یہ جاننے کے لیے آپ کو مختلف جانداروں کے چلنے پر غور کرنا ہوگا۔

زمین پر موجود کچھ جاندار 4 پیروں پر چلتے ہیں، کچھ اکڑوں چلتے ہیں جبکہ کچھ، بشمول انسان بالکل سیدھا چلتے ہیں۔

4 پیروں پر چلنے والے جانداروں کو ہر قدم پر اپنی توانائی صرف کرنی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس 2 پیروں پر چلنے والے جاندار، 4 پیروں والے جاندار کی نسبت چلنے پر 25 فیصد کم توانائی کم خرچ کرتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ 2 پیروں پر چلنے والے زمین کی کشش ثقل کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 2 پیروں والے جانداروں کو قدم اٹھانے میں تو توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے، تاہم قدم رکھنے میں ان کی کوئی توانائی نہیں صرف ہوتی اور وہ کشش ثقل کی وجہ سے خودبخود بغیر کسی توانائی کے زمین پر پڑتا ہے۔

اب جب چلنے میں اس قدر آسانی ہو، تو چلتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور دم کی ضرورت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔

حالانکہ انسانی سر 5 کلو گرام کا وزن رکھتا ہے اور چلتے ہوئے ایک اتنی وزنی شے کو سنبھالنے کے لیے کوئی سہارا درکار ہے۔ تاہم انسانوں اور دیگر 2 پیروں والے جانداروں کو یہ فائدہ ہے کہ ان کا سر چلتے ہوئے، سیدھا اوپر ٹکا رہتا ہے۔

اس کے برعکس 4 پیروں والے جانوروں کا سر آگے کی طرف ہوتا ہے اور اس کا توازن برقرار رکھنے کے لیے دم معاون ترین ثابت ہوتی ہے۔

ویسے ہمارے جسم میں اب بھی ناپید شدہ دم کی نشانی موجود ہے۔ ہماری ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا جسے ٹیل بون یا دمچی کہا جاتا ہے، اس کی ساخت ایسی ہے کہ موافق تبدیلیوں کے بعد یہاں سے دم نکل سکتی ہے۔

دم کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کی حقیقت

اکثر اوقات ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جن کے مطابق کسی بچے نے دم کے ساتھ جنم لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں اب دم کا کوئی تصور نہیں۔

اس طرح کے کیس میں دم کی طرح دکھنے والا جسم کا حصہ کوئی ٹیومر یا سسٹ ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ یہ مکمل نشونما نہ پا سکنے والا جڑواں جسم بھی ہوسکتا ہے۔

قوی امکان ہے کہ یہ ریڑھ کی ہڈی کا اضافی حصہ ہو جو زیادہ نشونما پا کر باہر نکل آیا ہو تاہم یہ صرف چربی اور ٹشوز کا بنا ہوا ہوتا ہے اور اس میں ہڈی نہیں ہوتی۔

یہ ریڑھ کی ہڈی کی خرابی ہے جسے طبی زبان میں اسپائنا بفیڈا کہا جاتا ہے، ڈاکٹرز سرجری کے ذریعے بچے کو بغیر کسی نقصان کے اسے باآسانی جسم سے الگ کرسکتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -