تازہ ترین

ملک میں معاشی استحکام کیلئےاصلاحاتی ایجنڈےپرگامزن ہیں، محمد اورنگزیب

واشنگٹن: وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک...

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

مشرق وسطیٰ میں ایک ہفتے کے دوران خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات

اومان / قاہرہ / ابو ظہبی: گزشتہ ہفتے کے دوران عرب ممالک میں 3 خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات پیش آئے جس نے عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، تینوں واقعات کے ملزمان گرفتار یا ہلاک ہوچکے ہیں۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے اردن، مصر اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والے اندوہناک واقعات میں خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔

اقوام متحدہ میں صنفی مساوات کا شعبہ جو خواتین کو بااختیار بناتا ہے، اس طرح کے قتل کو فیمیسائڈ کہتا ہے۔ گزشتہ دنوں مصر کی منصورہ یونیورسٹی کی طالبہ نائرہ اشرف کو دن دہاڑے سر عام چھرا گھونپ کر ماردیا گیا۔

قتل کی وجہ شادی کی تجویز سے انکار تھا، راہ گیروں نے حملہ آور کو گرفتار کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ایک اور واقعے میں اردن کے شہر عمان کی یونیورسٹی کے کیمپس میں گزشتہ دنوں 18 سالہ طالبہ ایمان الرشید کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اسی طرح شارجہ میں ہونے والے ایسے ہی اندوہناک واقعے میں ایک شوہر ملوث نکلا جس نے بیوی سے جھگڑنے کے بعد اس پر 16 وار کیے تھے۔

خاتون کی رہائش گاہ کی پارکنگ سے سی سی ٹی وی فوٹیج میں قاتل کو اپنی کار میں خاتون پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ بعد میں قاتل شوہر کو سمندر کے کنارے سے گرفتار کر لیا گیا۔

عرب دنیا صرف ایک ہفتے کے دوران 3 خواتین کے بہیمانہ قتل کی خبروں سے ہل گئی تھی، مصر کی طالبہ نائرہ اشرف کے قاتل نے دعویٰ کیا کہ اس کی دوست مختلف چیزیں حاصل کرنے کے لیے مجھے استعمال کرتی تھی، جب میں نے شادی کی تجویز دی تو اس نے مسترد کر دی۔

اردن میں بھی حکام نے زرقا کے شمال میں واقع قصبے میں قاتل کا سراغ لگا لیا اور اسے گرفتار کرنے کی کوشش میں پولیس نے اسے ہتھیار ڈالنے کا کہا تو قاتل نے خود کو گولی مار لی۔

سعودی دارالحکومت ریاض کی امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر ابراہیم الزبین نے ایسے افسوسناک واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو کسی ایک خطے یا معاشرے سے مخصوص نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے جرائم کی تہہ تک پہنچنے سے پتہ چلتا ہے کہ خاص طور پر خواتین کے خلاف فقط صنفی بنیاد پر ہونے والے جرائم قدامت پسند اور کم آمدنی والے طبقوں میں زیادہ عام ہیں۔

Comments

- Advertisement -