تازہ ترین

داعش کے خلاف برسر پیکار برقع پوش افغان خواتین

مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں اپنے پنجے گاڑتی شدت پسند تنظیم داعش ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ کسی محاذ پر اسے شکست کا سامنا ہے، اور کہیں تمام کوششوں کے باوجود اسے پچھاڑا نہیں جاسکا۔

افغانستان میں افغان فورسز اور اتحادی افواج کی کارروائیوں کے باوجود داعش کے مظالم جاری ہیں اور اب گھریلو افغان خواتین نے بھی ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔

شٹل کاک برقع میں ملبوس یہ خواتین گھریلو تو ہیں، تاہم ہتھیار اور گولیوں، بموں کی گھن گرج ان کے لیے اجنبی نہیں۔

اب جبکہ انہیں لگتا ہے کہ بعض نواحی علاقوں میں افغان فورسز داعش کی گردن تک نہیں پہنچ سکتی، تو یہ خود ہی مسلح ہو کر داعش کے خلاف میدان میں اتر آئی ہیں۔

افغان صوبے جوزجان میں، جو افغانستان اور ترکمانستان کی سرحد پر واقع ہے، کے درزاب اور شیبرغان ضلع میں سینکڑوں خواتین نہ صرف داعش بلکہ طالبان کے خلاف بھی برسر جنگ ہیں۔

انہی میں سے ایک سارہ خولہ نامی خاتون بھی شامل ہیں جن کا بیٹا داعش کے حملے میں مارا گیا اور اپنے پیچھے اپنے بچوں کو یتیم کرگیا۔

اب سارہ سراپا انتقام بن کر غم و غصہ کی حالت میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’داعش اور طالبان جہاں بھی ہیں میں ان سے انتقام لوں گی‘۔

فورسز میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ

شمالی افغانستان میں ان خواتین کی تربیت خواتین پولیس اہلکار کرر ہی ہیں۔ یہاں ہر ہفتے ملک کے مختلف حصوں سے 40 سے 50 خواتین آتی ہیں جو ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے، ’اگر آج ہم داعش اور طالبان سے ڈر گئے، تو کل ہمارا مستقبل تباہ ہوجائے گا‘۔

یہ سلسہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ افغان فوج اور پولیس میں خواتین کی تعددا میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔

جوزجان کے پولیس چیف جنرل رحمت کہتے ہیں، ’خواتین کا کام لڑنا بھڑنا نہیں ہے لیکن یہ اب حالات کا تقاضہ ہے‘۔

افغانستان کے ایک سیکیورٹی تجزیہ کار جاوید کوہستانی کا کہنا ہے کہ یہ خواتین اپنے شوہروں، بیٹوں اور بھائیوں کو ترغیب دینے کا سبب ہیں کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کا دفاع کیا جائے۔

برقع میں ملبوس یہ خواتین اپنے پیاروں اور اپنے ملک کو ان شدت پسند عناصر کے شکنجے سے بچانے کے لیے اپنی بھرپور قوت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -