تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

خواتین میں کرونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت مضبوط کیوں؟

واشنگٹن: طبی ماہرین نے آخر کار پتا لگا لیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں کرونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت زیادہ مضبوط کیوں ہوتی ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق خواتین کا مدافعتی نظام کرونا وائرس کے خلاف زیادہ مضبوط قرار دے دیا گیا، اس حوالے سے طبی ماہرین نے مختلف خیالات ظاہر کیے مگر اب ایک واضح جواب دیا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں کرونا انفیکشن کی شدت میں اضافے یا موت کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں کم کیوں ہے۔

کرونا وائرس کی وبا کے آغاز ہی سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ معمر مردوں میں اس سے شدید بیمار ہونے اور موت کا خطرہ خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

یہ تحقیق امریکا کی ریاست کنیکٹی کٹ میں قائم یئل یونی ورسٹی میں کی گئی جو طبی جریدے نیچر میں شایع ہوئی، جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کا مدافعتی ردعمل مردوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہے۔

ریسرچ کے مطابق خواتین کے جسم مردوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط مدافعتی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ ٹی سیلز تیار کرتی ہیں جو وائرس کو پھیلنے سے روکتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا کہ کو وِڈ 19 سے بیمار خواتین میں مرد مریضوں کے مقابلے میں ٹی سیلز کی سرگرمیاں نمایاں حد تک زیادہ تھیں، یہ سرگرمیاں زیادہ عمر والی خواتین میں بھی دیکھی گئیں۔

ریسرچ کے دوران مریضوں کی عمر اور ناقص ٹی سیلز ردِ عمل کے درمیان تعلق کو دیکھا گیا جو مردوں میں بدترین نتائج کا باعث تھا لیکن خواتین مریضوں میں ایسا نہیں تھا۔ محققین نے بتایا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ مردوں میں ٹی سیلز کے متحرک ہونے کی صلاحیت ختم ہونے لگتی ہے، جن لوگوں کے جسم ٹی سیلز بنانے میں ناکام رہتے ہیں، ان میں کو وِڈ 19 کے بدترین نتائج دیکھنے میں آئے۔

اس ریسرچ کے لیے اسپتال میں زیر علاج 17 مردوں اور 22 خواتین کا انتخاب کیا گیا، جن میں سے کوئی بھی مریض وینٹی لیٹر پر نہیں تھا، مریضوں کو ادویات کا استعمال بھی کرایا گیا جس کے مدافعتی نظام پر اثرات دیکھے گئے۔

ریسرچ کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے سلسلے میں مریضوں کی جنس کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔ ممکن ہے نوجوان مرد و خواتین کے لیے ویکسین کا ایک ڈوز کافی ثابت ہو، تاہم معمر مردوں کو ویکسین کے 3 ڈوز کی ضرورت پڑے۔

ماہرین کے مطابق جسم میں مدافعتی نظام کو ریگولیٹ کرنے والے بیش تر جینز ایک کروموسوم کی مدد سے متحرک ہوتے ہیں، جو مردوں میں ایک اور خواتین میں دو ہوتے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ہارمونز بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -