تازہ ترین

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

آٹزم سے آگاہی کا دن: وہ بچے جنہیں معمول سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے

آج دنیا بھر میں اعصابی خرابی آٹزم سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے، پاکستان میں آٹزم کے حوالے سے گزشتہ 10 سے 15 سال کے دوران شعور میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔

آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

پاکستان سینٹر فار آٹزم کی ڈائریکٹر ساجدہ علی نے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کے دوران بتایا کہ یہ نیورولوجیکل ڈس آرڈر یعنی اعصابی خرابی ہے، یہ پیدائشی ہوتی ہے اور تا عمر رہتی ہے۔

ساجدہ علی کا کہنا ہے کہ آج کل یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اسمارٹ فون کے زیادہ استعمال کی وجہ سے بچوں میں یہ مرض پرورش پانے لگا ہے، اس خیال کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

ان کے مطابق بچوں کے اندر اس خرابی کا 6 ماہ کے اندر بھی پتہ چل سکتا ہے کیونکہ 6 ماہ کا بچہ بھی آواز دینے پر متوجہ ہوتا ہے، مسکراتا ہے یا اس کی آنکھوں میں تاثرات ظاہر ہوتے ہیں، لیکن آٹزم کا شکار بچے کو کسی کی آواز پر متوجہ ہونے میں وقت لگتا ہے۔

ساجدہ علی کے مطابق ایسے بچوں کو سوشل کمیونیکیشن میں بہت زیادہ پریشانی ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی مطلوبہ شے کو یا تو خود حاصل کرنے کی کوشش کریں گے یا اس تک نہیں پہنچ سکیں گے تو رونا شروع کردیں گے، لیکن کہہ کر اپنی طلب کا اظہار نہیں کرسکیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس خرابی میں 2 انتہائیں ہوسکتی ہیں، مشہور سائنسدان آئن اسٹائن بھی آٹزم کا شکار تھا اور وہ ایک انتہا پر تھا۔ ایک انتہا ایسے بچوں کے ذہنی طور پر بہت زیادہ فعال ہونے کی یا دوسرے لفظوں میں ذہین ہونے کی ہے، یا پھر ان میں کوئی خاص صلاحیت قدرتی طور پر موجود ہوسکتی ہے۔

دوسری انتہا میں بچہ عام بچوں کی نسبت کند ذہن ہوسکتا ہے اور اسے کچھ نیا سیکھنے یا سمجھنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔

Comments

- Advertisement -