تازہ ترین

اسرائیل کا ایران کے شہر اصفہان پر میزائل حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

عالمی یومِ کتاب: پاکستان میں کتب بینی کے رجحان میں کمی کیوں؟

آج دنیا کتابوں کا عالمی دن منا رہی ہے جس کا مقصد علم و ادب کا فروغ اور کتب بینی کا شوق پیدا کرنا ہے۔ اس دن مصنّفین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی تخلیقات کو خاص طور پر سراہا جاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل نے 1995ء میں فرانس میں اجلاس کے دوران 23 اپریل کو ‘ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے‘ منانے کا اعلان کیا تھا اور رواں صدی کے آغاز پر اس روز دنیا کے کسی ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دارُالحکومت بھی قرار دیا جانے لگا ہے۔

دنیا کے مختلف علوم اور فنون و مہارت کے شعبوں پر مفید اور معلوماتی کتب عام دست یاب ہیں جب کہ کئی اہم موضوعات پر صدیوں پرانی کتابیں اور موجودہ دور میں جدید تحقیق کے بعد لکھی گئی کتابیں سرکاری اور اکثر شائقینِ مطالعہ کی ذاتی لائبریریوں میں‌ موجود ہوتی ہیں۔ یہ کتب خاص طور پر طالبِ علموں کے لیے معلومات کا خزانہ ہیں اور ترقیّ یافتہ معاشروں میں ایسے کتب خانوں سے استفادہ کیا جاتا ہے، لیکن اس دن کو منانے کے فیصلے سے ان ممالک میں بھی کتب بینی کو فروغ دینے اور فروغِ علم میں مدد ملی ہے جہاں مطالعہ کا رجحان کم ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں کتب بینی اور مفید و معلوماتی خزانے سے استفادہ کرنے کی شرح بہت کم ہے جس کی ایک بڑی وجہ کم شرحِ خواندگی، صارفین کی کم زور قوّتِ خرید اور انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے۔ دوسری طرف کاغذ کی قیمت بڑھنے کے بعد کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا سلسلہ بھی کم ہوگیا ہے جب کہ سرکاری لائبریریوں کا حال سبھی جانتے ہیں۔ حکومتی سطح پر کتب بینی کے فروغ کی کوششیں نہ کرنا، مصنفین اور پبلشرز کی حوصلہ افزائی نہ ہونے، انھیں سہولیات اور وسائل کی عدم فراہمی بھی مطالعے کے رجحان میں‌ کمی کا سبب ہے۔

موجودہ دور میں تفریحی مقاصد کے لیے انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھی کتاب اور مطالعے کے شوق پر اثر ڈالا ہے۔ ملک میں لائبریریوں کا قیام اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے مناسب اور ضروری وسائل کی فراہمی پر حکومت کو توجہ دینا ہو گی۔

اساتذہ اور والدین بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسکول اور کالج کی سطح پر اساتذہ اور گھروں میں‌ والدین بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کرکے معاشرے میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ مطالعہ انسانی ذہن کی بند گرہ کو کھولتا ہے اور شعور بیدار کرتا ہے جو کسی بھی معاشرے میں خصوصاً نوجوانوں کو کارآمد اور ہونہار بناتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ موجودہ دور میں‌ انٹرنیٹ پر اور ڈیجیٹل لائبریریوں کی شکل میں کتابیں پڑھی جارہی ہیں، لیکن کتب بینی کی اس شکل کو بھی تحریک دینے اور اسے زیادہ مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔

Comments

- Advertisement -