آئی سی سی نے سابقہ تین ورلڈ کپ کی برعکس چوتھے ورلڈ کپ کی میزبانی 1983 کے عالمی چیمپئن بھارت اور پڑوسی ملک پاکستان کو دی۔
بھارت نے 1983 کے عالمی چیمپئن کا اعزاز پانے کے چار سال بعد میگا ایونٹ کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل کی اور اس اعزاز میں پڑوسی مگر روایتی حریف ملک پاکستان شامل رہا تاہم دونوں ممالک نے بھرپور اور کامیاب انداز میں میگا ایونٹ منعقد کرا کے دنیائے کرکٹ کے دل جیت لیے جب کہ اس ایونٹ میں آسٹریلیا کی صورت کرکٹ کا نیا عالمی چیمپئن کھیلوں کے افق پر ابھرا۔
چوتھا میگا ایونٹ فارمیٹ، میچز کے حساب سے سابق ایونٹ سے مطابقت رکھتا تھا یعنی مجموعی طور پر 8 ٹیموں نے شرکت کی اور ان کے درمیان فائنل سمیت 27 میچز کھیلے گئے جن میں نیا عالمی چیمپئن سامنے آیا تاہم کچھ اہم تبدیلیاں بھی سامنے آئیں۔
ورلڈ کپ 1987 کی پہلی بڑی تبدیلی:
اس سے قبل 1971، 1979 اور 1983 کے ورلڈ کپ میں ایک ٹیم کی اننگ 60 اوورز پر مشتمل ہوتی تھی تاہم مذکورہ تینوں ایونٹ کا میزبان انگلینڈ تھا جہاں دن کی روشنی زیادہ وقت تک رہتی ہے جب کہ پاکستان اور بھارت میں جس وقت یہ میگا ایونٹ ہوا تو دن کا ٹائم گھٹنے لگتا ہے اس وقت چونکہ فلڈ لائٹ میچز کا تصور تک نہ تھا اس لیے دن کی روشنی میں میچز مکمل کرانے کے لیے پہلی بار ون ڈے میچز میں ایک اننگ 50 اوور پر مشتمل اور پورا میچ 100 اوورز کا رکھا گیا۔
پہلی بار غیر جانبدار امپائرز کی تقرری:
چوتھے ورلڈ کپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس میگا ایونٹ میں کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ون ڈے میچز میں غیر جانبدارانہ امپائرز کی تعیناتی کی گئی جس سے ان کی شفافیت کا معیار بہتر ہوا اور چھوٹے چھوٹے تنازعات ہوا ہوئے۔
1987 کا کرکٹ میلہ ریلائنس ورلڈ کپ دنیا میں ایک روزہ کرکٹ کی مقبولیت میں بڑا سنگ میل ثابت ہوا جس سے خصوصاً خطہ برصغیر میں کرکٹ کو مزید فروغ ملا۔
اس ایونٹ کی دفاعی چیمپئن بھارت تھی لیکن ٹورنامنٹ کی ہاٹ فیورٹ وہ نہیں تھی بلکہ اس کا روایتی حریف پاکستان اس دور کی کارکردگی کے باعث ہاٹ فیورٹ تھا اور اس نے جس طرح کھیلا اس سے یہ درست بھی ثابت ہوا مگر کوئی ایک دن کسی مخالف ٹیم کے لیے اچھا ہوتا ہے ایسا ہی پاکستان کے ساتھ ہوا اور وہ ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھاتے اٹھاتے رہ گیا جب کہ بھارت بھی اپنے اعزاز کا دفاع کرنے میں ناکام رہی اور دونوں میزبان ٹیموں کا سفر سیمی فائنل میں ہی تمام ہوگیا۔
چوتھے ورلڈ کپ میں بھی سابق تین میگا ایونٹ کی طرح مجموعی طور پر 8 ٹیموں نے حصہ لیا اور انہیں دو گروپس میں ہی تقسیم کیا گیا۔ ہر ٹیم نے اپنے گروپ کی دوسری ٹیم سے دو دو میچ اور پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر 6، 6 میچز کھیلے۔ ہر گروپ کی ٹاپ ٹو ٹیموں نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔
گروپ اے میں پاکستان، سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کی ٹیمیں شامل تھیں جب کہ گروپ بی دفاعی چیمپئن بھارت، آسٹریلیا، زمبابوے اور نیوزی لینڈ پر مشتمل تھا۔ میزبان ٹیموں نے پہلے راؤنڈ کے اپنے اپنے میچز اپنی سر زمین پر ہی کھیلے تاہم دیگر ٹیمیں دونوں ممالک میں ایکشن میں نظر آئیں۔
1987 کے عالمی کپ میں بننے والے بیٹنگ اور بولنگ کے ریکارڈز پر ایک نظر:
اس میگا ایونٹ میں بلے بازوں کی رنز کی بھوک مزید بڑھی ہوئی نظر آئی اور پورے ٹورنامنٹ میں بیٹرز کے بلوں سے 12522 رنز بنے جب کہ بولرز کا بیٹرز کو شکار کرنے کا جنون بھی جوش میں نظر آیا جنہوں ن ے مجموعی طور پر 385 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور بیٹنگ اور بولنگ کا مجموعی ریکارڈ گزشتہ ورلڈ کپ کے ریکارڈ کو بہتر بناتا ہے۔
ایونٹ میں بولرز نے 101 بیٹرز کی وکٹیں اڑائیں تو 113 بلے بازوں کے کیچ فیلڈرز نے دبوچے۔ 47 بلے باز وکٹ کیپر اور بولر کے گٹھ جوڑ سے انجام کو پہنچے تو 22 کو بولرز نے اپنی ہی گیند پر کیچ کر کے پویلین کی راہ دکھائی۔ 64 کھلاڑی کریز پر دوڑے ہوئے فیلڈرز کی چابک دستی کا نشانہ بنے اور 11 اسٹمپ آؤٹ ہوئے۔
عالمی کپ 1987 میں سب سے زیادہ میچ ٹورنامنٹ کی فائنلسٹ ٹیمیں آسٹریلیا اور انگلینڈ رہیں جنہوں نے 8،8 میچز کھیلے۔ سب سے زیادہ وکٹیں آسٹریلیا کی اڑیں جن کی تعداد 55 ہے، سب سے زیادہ اوورز کھیلنے والی ٹیم انگلینڈ پورے ٹورنامنٹ میں 389.3 اوورز تک بیٹنگ کی جب کہ رنز دینے میں آسٹریلوی آگے رہے جن کے خلاف مخالف بیٹرز نے 1818 رنز بنائے تاہم اس کے عوض آسٹریلوی بولرز نے سب سے زیادہ 69 وکٹیں حاصل کیں۔
عالمی کپ 1987 میں بننے والی کل سنچریوں کی تعداد 11 رہی۔ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے تین تین کھلاڑیوں نے آسٹریلیا کے دو ،انگلینڈ ،بھارت اور زمبابوے کے ایک ایک کھلاڑی نے سنچری اسکور کی۔ عالمی کپ 1987 کی سب سے بڑی اننگز ویسٹ انڈین کے ویوین رچرڈ نے کھیلی اور 181 رنز بنا کر گزشتہ مقابلوں کے تمام ریکارڈز توڑ ڈالے۔
تاریخ ساز ماضی کے سابق بیٹر نے 181 رنز کی لافانی اننگ کھیل کر اس وقت نہ صرف چوتھے عالمی کپ مقابلوں میں بلکہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔ اس میگا ایونٹ میں بہترین بائولنگ کا ریکارڈ آسٹریلوی میکڈرمٹ نے 44 رنز کے عوض وکٹیں حاصل کر کے قائم کیا جب کہ آل رائونڈر کارکردگی دکھانے کا اعزاز پاکستانی کپتان عمران خان کے پاس رہا جنہوں نے آسٹریلیا کے خلاف لاہور میں 58 رنز بنائے اور 36 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کیں۔
میگا ایونٹ میں مجموعی طورپر سب سے زیادہ رنز انگلینڈ کے گراہم گوچ نے 471 رنز اسکور کرکے کیے جب کہ ٹاپ بولر گریک میکڈر موٹ 18 وکٹوں کے ساتھ سر فہرست رہے۔ آسٹریلوی جیف مارش نے ہی بیٹ کیری کا اعزاز حاصل کیا انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف 50 اوورز کھیل کر 126 رنز کی اننگ کھیلی اور ناٹ آؤٹ واپس آئے۔
اس ایونٹ کا ایک منفی ریکارڈ سری لنکن بولر رتنائیکے کے نام رہا جنہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں اپنے ایک اوور میں 23 رنز کی سخاوت کر ڈالی۔ جس میں انہوں نے گس لوگی اور رچرڈ سے تین چکے اور ایک چوکا کھایا۔ انفرادی اننگ میں اس ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ باؤنڈریز رچرڈ نے لگائیں اور کراچی میں سری لنکا کے خلاف 16 بار گیند کو باؤنڈری سے باہر پہنچایا جب کہ ایک اننگ میں سب سے زیادہ 7 بار چھکے لگانے کا اعزاز بھی انہوں نے اپنے نام کیا۔
بھارت کے لٹل ماسٹر سنیل گواسکر اپنے کیریئر کے چوتھے ورلڈ کپ میں پہلی ون ڈے سنچری بنانے میں کامیاب رہے جب کہ چیتن شرما نے ورلڈ کپ کی پہلی ہیٹ ٹرک بنائی۔
چوتھے ورلڈ کپ میں شریک ٹیموں کے قائد:
تیسرے ورلڈ کپ کی طرح چوتھے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی قیادت عمران خان نے سنبھالی جب کہ دیگر کھلاڑیوں میں سلیم ملک، رمیز راجا، مدثر نذر ، اعجاز احمد، جاوید میانداد، منصور اختر، شعیب محمد، عبدالقادر، توصیف احمد، سلیم یوسف کے علاوہ اپنا پہلا ورلڈ کپ کھیلنے والے وسیم اکرم، سلیم جعفر اور منظور الٰہی شامل تھے ۔بھارت کے کپتان کپیل دیو تھے، ویسٹ انڈیز کی قیادت ویون رچرڈز کے پاس تھی، آسٹریلوی بارڈر کی قیادت میں کھیل رہے تھے، انگلینڈ کی قیادت مائیک گیٹنگ کے کنٹرول میں تھی ، سری لنکا والے دلیپ مینڈس کے سائے تلے کھیل رہے تھے، نیوزی لینڈ کی بادشاہت جیف کرو اور زمبابوے کی قیادت ٹرائی کورس کر رہے تھے۔
ایونٹ میں کئی سنسنی خیز میچز سامنے آئے جس نے ایک روزہ کرکٹ میں شائقین کی دلچسپی کو مزید دو آتشہ کر دیا۔ جس میں سر فہرست گوجرانوالہ میں انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کا میچ سنسنی خیز رہا اور آخری اوور میں کورٹنی واش 13 رنز کا دفاع کرنے میں ناکام رہے یوں انگلینڈ نے یہ میچ اپنے نام کیا۔ اسی روز شائقین کرکٹ نے مدراس میں ایک اور سنسنی خیز میچ دیکھا جس میں آسٹریلیا نے دفاعی چیمپئن بھارت کو آخری گیند پر صرف ایک رنز سے ہرایا۔
ورلڈ کپ 1987 میں کھیلے گئے میچز پر سرسری نظر:
16 اکتوبر کو قذافی سٹیڈیم لاہور میں عبدالقادر کے آخری اوور میں بنائے گئے 14 رنز کی بدولت پاکستان سنسی خیز مقابلے کے بعد ایک وکٹ سے کامیاب ہوا ، ویسٹ انڈیز کے لیے اس مرتبہ بھی کورٹنی واش بدقسمتی کی علامت رہے جنہوں نے آخری اوور میں اتنے رنز کا تحفہ پاکستان کو ٹرے میں رکھ کر پیش کیا تاہم اس موقع پر ان کی اسپورٹس مین سپرٹ بھی سامنے آئی جس کو شائقین کرکٹ نے سراہا کہ انہوں نے موقع ہونے کے باوجود کریز سے باہر نکل جانے والے سلیم جعفر کو نان اسٹرائیک اینڈ پر آؤٹ نہ کیا ورنہ یہ میچ پاکستان ہار چکا ہوتا۔
یہ ورلڈ کپ ویسٹ انڈیز کے لیے بھیانک خواب ثابت ہوا جس میں وہ بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد پہلی بار شوپیش ایونٹ کے فائنل فور میں بھی جگہ نہ بنا سکی۔
گروپ اے سے پاکستان اور انگلینڈ جب کہ گروپ بی سے بھارت اور آسٹریلیا نے سیمی فائنلز کے لیے کوالیفائی کیا۔ تاہم غیر متوقع طور پر دونوں میزبان ٹیمیں اس گروپ سے آگے نہ جا سکیں اور برصغیر پر دیار غیر کی ٹیموں نے میگا ایونٹ کا فائنل کھیلا جس میں آسٹریلیا فاتح رہا۔
چوتھا ورلڈ کپ کا آغاز 8 اکتوبر سے ہوا اور ایک ماہ تک جاری رہنے کے بعد 8 نومبر کو فائنل کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ افتتاحی میچ کی میزبانی کا اعزاز پاکستان کے حیدرآباد کو حاصل ہوا جہاں میزبان پاکستان کے مدمقابل سری لنکا تھی اور پاکستان نے یہ میچ 15 رنز سے اپنے نام کرکے ایونٹ میں اپنا فاتحانہ آغاز کیا۔ میچ کے بہترین کھلاڑی لیجنڈری جاوید میانداد رہے جنہوں نے سنچری اسکور کی۔
اگلے روز 9 اکتوبر کو دفاعی چیمپئن اور آسٹریلیا چنائی میں میدان میں اترے اور یہ میچ انتہائی سنسنی خیز رہا جس میں دفاعی چیمپئن کو صرف ایک رنز سے شکست ہوئی۔ مقررہ 50 اوورز میں آسٹریلیا نے 6 وکٹوں کے نقصان پر 270 رنز بنائے بھارت اچھے طریقے سے ہدف حاصل کر رہا تھا کہ فائنل اوور کی آخری گیند پر ہدف سے صرف ایک روز دوری پر 269 رنز پر آخری وکٹ گنوا کر یقینی فتح کھو بیٹھا۔ بہترین کھلاڑی 110 رنز بنانے والے جیف مارش رہے۔
تیسرا میچ بھی کافی سنسنی خیز رہا جو 9 اکتوبر کو پاکستان کے گوجرانوالہ میں ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا جو انگلینڈ نے دو وکٹوں سے اننگ کی آخری گیند پر اپنے نام کیا۔ ایلن لیمب 67 رنز بنانے پر مرد بحران قرار پائے۔
نیوزی لینڈ کو نو آموز زمبابوے بھاری پڑا لیکن تجربہ کام آیا اور کیویز نے یہ میچ صرف تین رنز سے بچانے میں کامیاب رہا۔ بھارتی حیدرآباد میں کھیلے گئے اس میچ میں نیوزی لینڈ کے مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 242 رنز بنائے لیکن زمبابوے کی کارکردگی بھی شاندار رہی تاہم وہ صرف تین رنز کی دوری یعنی 239 رنز پر ہمت ہار گئی۔ 141 رنز بنانے والے ڈیوڈ ہاؤٹن بہترین کھلاڑی رہے۔
12 اکتوبر کو پاکستان نے اپنی سر زمین پر انگلینڈ کو 18 رنز سے زیر کیا تو اگلے ہی روز آسٹریلیا نے زمبابوے کو 96 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دی۔ عبدالقادر اور اسٹیو واہ بالترتیب اپنی اپنی فاتح ٹیموں کے مین آف دی میچ قرار پائے۔
13 اکتوبر کو ویسٹ انڈیز نے کراچی میں سری لنکا کو 191 کے بھاری مارجن سے ہرایا اور اسی میچ میں ویوین رچرڈز نے 181 رنز کی شاندار اور ورلڈ کپ کی تاریخ کی سب سے بڑی اننگ کھیلنے کا اعزاز بھی حاصل کیا ساتھ مین آف دی میچ بھی رہے۔ اگلے روز دفاعی چیمپئن بھارت نے نیوزی لینڈ کو آسانی سے پچھاڑ دیا۔
16 اکتوبر کو ایک اور انتہائی سنسنی خیز پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا گیا جو پاکستان نے میچ کی آخری گیند پر اپنے نام کیا۔ ویسٹ انڈیز پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 49.3 اوورز میں 216 پر آؤٹ ہوئی تو پاکستان نے آخری اوور کی آخری گیند پر مطلوبہ 217 رنز کا ہدف 9 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر کے ایک وکٹ سے مقابلہ اپنے نام کیا سلیم یوسف مین آف دی میچ رہے۔ اگلے روز بھارت نے زمبابوے کو 8 وکٹوں سے زیر کیا۔
انگلینڈ نے سری لنکا کو پچھاڑا تو اگلے روز آسٹریلیا نے تین رنز سے نیوزی لینڈ کو ہرایا اور دونوں میچز پشاور میں کھیلے گئے تاہم آخر الذکر میچ بارش سے متاثر ہونے کے باعث 30، 30 اوورز پر مشتمل کھیلا گیا۔
کراچی میں 13 اکتوبر کو انگلینڈ میزبان پاکستان کو زیر کرنے میں ناکام رہا اور دوسری بار شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ میچ کے بہترین کھلاڑی قومی کپتان عمران خان رہے جنہوں نے 37 رنز کے عوض 4 انگلش بلے بازوں کا شکار کیا۔
بھارتی دارالحکومت دہلی میں ویسٹ انڈیز نے سری لنکا کو قابو کیا جب کہ بھارت نے آسٹریلیا کو زیر کرکے پہلے میچ کی شکست کا بدلہ لے لیا۔
اکتوبر 16 کو نیوزی لینڈ کے سامنے زمبابوے نے گھٹنے ٹیک دیے جب کہ اگلے ہی روز پاکستان نے سری لنکا کو ایونٹ میں مسلسل دوسری بار شکست سے دوچار کیا۔
انگلینڈ نے 18 اکتوبر کو اہم میچ میں دم توڑتی کالی آندھی کو قابو کرکے سیمی فائنل تک اپنی رسائی کا امکان قائم جب کہ ویسٹ انڈیز کو فائنل فور کی دوڑ سے باہر کیا۔ بھارت نے زمبابوے جب کہ آسٹریلیا نے پہلے نیوزی لینڈ اور پھر زمبابوے کو زیر کیا۔
انگلینڈ نے سری لنکا کو شکست دے کر فائنل فور کا ٹکٹ کٹایا۔ ویسٹ انڈیز نے اپنے آخری گروپ میچ میں پاکستان کیخلاف 30 رنز سے فتح حاصل کی۔ 24 اکتوبر کو گروپ سطح کا آخری میچ بھارت اور نیوزی لینڈ کے مقابل کھیلا گیا جس میں میزبان فاتح رہا۔
گروپ اے سے پاکستان اپنے 5 میچز جیت کر ٹاپ اور انگلینڈ چار میچز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا جب کہ گروپ بی میں بھارت اور آسٹریلیا بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز تین تین میچز جیت سکے تاہم فائنل فور میں جگہ نہ بنا سکے جب کہ سری لنکا اور زمبابوے کے ہاتھ کوئی فتح نہ آ سکی۔
پہلا سیمی فائنل:
پہلا سیمی فائنل 7 نومبر کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ایونٹ کی ہاٹ فیورٹ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا جو غیر متوقع طور پر آسٹریلیا نے جیت لیا۔ کینگروز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 267 رنز بنائے۔ اس اننگ کی خاص بات پاکستان کے فاسٹ بولر وسیم جعفر کے آخری اوورز میں بننے والے 18 رنز تھے اور اتنے ہی رنز سے پاکستان کی شکست نے شائقین کی تمام توپوں کا رخ ان کی طرف موڑ دیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اس میچ کے بعد دوبارہ میدان میں ایکشن میں دکھائی نہیں دیے۔ آسٹریلیا کے گریک ڈرموٹ اس میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے جنہوں نے 44 رنز دے کر اہم پاکستانی بلے بازوں کی وکٹیں حاصل کیں۔
دوسرا سیمی فائنل:
دوسرا سیمی فائنل دفاعی چیمپئن بھارت اور دوسرے ورلڈ کپ کی فائنلسٹ ٹیم انگلینڈ کے درمیان 26 اکتوبر کو ممبئی میں کھیلا گیا اور میزبان ٹیم میدان میں فیورٹ کے طور پر اتری لیکن نتیجہ برعکس رہا۔ انگلش ٹیم نے 35 رنز سے بھارت کو زیر کرکے دفاعی چیمپئن کا اعزاز کے دفاع کرنے کے مشن کو ناکام بنا دیا۔ مین آف دی میچ گراہم گوچ (115 رنز) رہے اور یوں پہلی بار روایتی حریف آسٹریلیا اور انگلینڈ بڑے ایونٹ کے سب سے بڑے مقابلے میں آمنے سامنے آئیں۔
فائنل مقابلہ:
کولکتہ کے ایڈن گارڈن کے 80 ہزار زائد شائقین سے بھرے اسٹیڈیم میں آسٹریلیا کے کپتان ایلن بارڈر نے ٹاس جیتا اور مضبوط بیٹنگ لائن کو دیکھتے ہوئے انگلینڈ کو بڑا ہدف دے کر قابو کرنے کی حکمت عملی کے تحت پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو درست ثابت ہوا۔
آسٹریلیا کی ٹیم نے مقررہ 50 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 253 رنز بنائے۔ 254 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلش ٹیم نے پوری کوششیں کیں لیکن 7 رنز کے فاصلے پر ہمتیں جواب دے گئیں یوں آسٹریلیا نے بھارت کی سر زمین پر کرکٹ کی حکمرانی کا تاج پہنا اور ایلن بارڈر نے ریلائنس ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھائی۔ مین آف دی میچ ڈیوڈ بون رہے جنہوں نے 75 رنز کی اننگ کھیلی۔
اس مضمون کے لیے عمران عثمانی کی کتاب ’’ورلڈ کپ کہانی‘‘ سے بھی مدد لی گئی ہے۔