بدھ, مارچ 26, 2025
اشتہار

ورلڈ کپ: اس بار پاکستان کا بیڑا پار کرنے کا سارا بوجھ بلے بازوں پر ہوگا؟

اشتہار

حیرت انگیز

نسیم شاہ کی عدم موجودگی کے باعث کیا پاکستان کی ورلڈ کلاس بولنگ سطحی ہوگئی اور اس بار ورلڈ کپ 2023 میں قومی ٹیم کا بیڑا پار کرنے کا سارا بوجھ بلے بازوں پر ہوگا؟

پاکستان کرکٹ کی پہچان ہر دور میں اس کی بہترین بولنگ رہی ہے گوکہ قومی ٹیم نے دنیائے کرکٹ کو کئی عالمی شہرت یافتہ بلے باز بھی دیے جن سے دنیا کے بڑے بڑے بولرز پٹائی کے خوف سے کانپتے تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ گرین شرٹس کی کامیابیوں میں مجموعی طور پر بولرز کا زیادہ ہاتھ رہا ہے۔

تاہم پاکستان 2023 کے عالمی کپ کے لیے جس ٹیم کے ساتھ بھارت گیا ہے تو کیا اب بھی یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے۔ یقیناً اب ماہرین بھی اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ اپنے موقف میں تبدیلی لا رہے ہیں۔

بولنگ اگرچہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا ہمیشہ سے مضبوط ترین شعبہ رہا ہے لیکن اس بار انڈیا میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں شاید ایسا نہ ہو، اس لیے پاکستان کا بیڑا پار کرنے کا تمام تر بوجھ پاکستانی بیٹرز خصوصاً کپتان بابر اعظم کے کندھوں پر آ گیا ہے۔

پاکستان ایک ماہ قبل تک ون ڈے کی نمبر ون ٹیم تھی اور بابر الیون حالیہ ایشیا کپ کی شروعات میں فیورٹ سمجھی جا رہی تھی۔ لیکن روایتی حریف انڈیا اور سری لنکا سے شکست نے نہ صرف پاکستان کے فیورٹ اسٹیس کو دھچکا لگایا بلکہ گرین شرٹس کے لیے نئی تشویش اور خدشات بھی پیدا کیے۔

فاسٹ بولر نسیم شاہ انڈیا کے خلاف میچ میں اپنا کندھا زخمی کرا بیٹھے جس کے بعد وہ ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے۔ نسم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی پاکستان کے لیے نئے بال کی خطرناک ترین جوڑی ثابت ہوئے ہیں۔

نسیم شاہ کی جگہ حسن علی کو ٹیم میں شامل کیا گیا لیکن اس بار پاکستان ابتدائی اوور میں جلد وکٹ کے لیے شاہین شاہ آفریدی پر بہت زیادہ انحصار شاید نہ کرے۔

پاکستان کے سپنرز خصوصاً نائب کپتان شاداب خان بھی ایشیا کپ میں وکٹ کے لیے کافی جدوجہد کرتے نظر آئے۔ تاہم کپتان بابر کو اپنے پلیئرز پر پورا بھروسہ ہے جنہوں نے ٹیم کو ون ڈے رینکنگ میں نمبر ون بنایا تھا۔

پہلے وارم اپ میچ میں بڑے ہدف کے دفاعی میں پاکستان کی ناکامی کے بعد پاکستان  بولنگ اٹیک تو بے دانت کا شیر لگ رہا ہے کیونکہ پاکستان کی بولنگ اس بار کلک نہیں کر پا رہی ہے اس لیے باہر اعظم اور باقی بیٹرز کے کندھوں پر اب پاکستان کو ون ڈے ورلڈ کپ کا دوسرا ٹائٹل دلوانے کی ذمے داری آ گئی ہے۔

انڈیا روانگی سے قبل بابر نے کہا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے فیلڈنگ میں غلطیاں کیں اور درمیانی اوورز میں وکٹ لینے کی ہماری صلاحیتیں ماند پڑ گئی تھیں لیکن ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور امید ہے ان کو نہیں دہرائیں گے۔

جب بابر سے پوچھا گیا تھا کہ کیا پاکستان اگر ورلڈ کپ مہم کا احتتام سیمی فائنل پر کرتا ہے تو کیا یہ اچھی کارکردگی ہو گی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ٹاب فور میں آنا تو ہمارے لیے بہت چھوٹی بات ہے ہم انڈیا سے فاتح بن کر واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔

اگرچہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستانی ٹیم کسی ٹورنامنٹ میں خدشات کے ساتھ جا رہی ہے لیکن انڈیا میں ٹیم کو کچھ زیادہ ہی محنت کرنا پڑے گی کیونکہ پاکستان کو جیو پولیٹکل صورتحال کی وجہ سے ایک انوکھی صورتحال کا سامنا ہے۔

جنوبی ایشیائی پڑوسیوں میں سیاسی تناؤ کی وجہ سے دوطرفہ کرکٹ کئی سالوں سے نہیں ہو رہی ہے اور دونوں ٹیمیوں کا آمنا سامنا صرف بڑے ٹورنامنٹ میں ہی ہوتا ہے۔

پاکستان نے انڈیا کا دورہ آخری مرتبہ 2016 کے ٹی20 ورلڈ کپ کے لیے کیا تھا اور پاکستانی کھلاڑی انڈین پریمئیر لیگ میں بھی شریک نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کو انڈیا کی کنڈیشنز کے بارے میں بہت تھوڑی معلومات ہو گی لیکن بابر اعظم اس سے پریشان نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’گو کہ ہم نے اس سے پہلے انڈیا میں نہیں کھیلا ہے لیکن اس وجہ سے ہم کسی قسم کے دباؤں کا شکار نہیں۔ ہم نے اپنی تحقیق کی ہے اور سنا ہے کہ وہاں کی صورتحال ماسوائے چنئی کے پاکستان جیسی ہے۔

پاکستان اپنی ورلڈ کپ کی مہم کی شروعات 6 اکتوبر کو نیدر لینڈز کے خلاف احمد آباد میں کرے گا جس کے سارے ٹکٹس بِک چکے ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں