تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

بچوں کی مزدوری کے خلاف آگاہی کا عالمی دن

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں سے مشقت کے خلاف آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال کام کرنے والوں بچوں کی صحت و حفاظت کے متعلق ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 5 سے 17 سال کی عمر کے 31 کروڑ 7 لاکھ بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔

یہ تعداد صرف 2 سال قبل سنہ 2015 میں 16 کروڑ 8 لاکھ تھی۔ گویا دنیا جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے، کمزوروں اور غریبوں کے لیے دور جہالت کے قوانین و حالات لوٹ کر آرہے ہیں۔

اس کا ایک سبب دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی معرکہ آرائیاں، خانہ جنگیاں، قدرتی آفات اور ہجرتیں بھی ہیں جو بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں زندگی کی تپتی بھٹی میں جھونک دیتی ہیں۔


پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت میں اضافہ

وطن عزیز کا شمار بدقسمتی سے دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کے منفی رجحان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کا حتمی اور موجودہ اندازہ لگانا مشکل ہے جو مختلف سیکٹرز میں مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں وہ 18 برس قبل یعنی سنہ 1996 میں اکٹھے کیے گئے تھے۔

انسانی حقوق کمیشن کے مطابق چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ شرح صوبہ پنجاب میں موجود ہے، جہاں 19 لاکھ بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں یہ تعداد 10 لاکھ، صوبہ سندھ میں 2 لاکھ 98 ہزار جبکہ بلوچستان میں 14 ہزار بچوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔

ماہرین عمرانیات و معاشیات کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ٹہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں۔ ’جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے۔ بلکہ جو کچھ وہ کما رہے ہیں وہ ایک نہایت معمولی رقم ہے۔ لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے بھی کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے۔ تو اگر بچوں کو وہ 1 ہزار یا 500 روپے مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہو گا‘۔

دوسری جانب پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین تو موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اور غیر مؤثر ہیں۔

ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا ہوگی جس کی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔

اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت 2 سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 11 سیکشن 3 کے تحت ملک میں 14 سال سے کم عمر بچے کسی فیکٹری، کان یا ایسی جگہ ملازمت نہیں کرسکتے جو ان کے لیے جسمانی اعتبار سے خطرناک ثابت ہو۔

تاہم مندرجہ بالا قوانین چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ناکافی ہے اور ان پر عملدرآمد بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

علاوہ ازیں چائلڈ لیبر کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا بھی ہے جن سے متعلق کوئی قوانین نہیں جیسے گھریلو ملازم بچے یا گاؤں دیہات میں زراعت کے پیشے سے منسلک بچے۔

عالمی ادارہ برائے مزدوری کے تحت شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان ان 67 ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں چائلڈ لیبر کی صورتحال خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس صورتحال کو بہتر بنانے میں سنجیدگی سے کوشش کرے اور مؤثر قانون سازی پر توجہ دے تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -