تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

تھیٹر کا عالمی دن: زندگی کو پردے پر پیش کرنے والا فن

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے۔

تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

برصغیر کا تھیٹر

برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔ اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے شکنتلا نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔

بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔

پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔

Comments

- Advertisement -