تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

پہلی عالمی جنگ اور نطشے کی پیش گوئی

بہ قول فرانز کونا، نطشے نے واضح کیا کہ جدید دنیا جس پر علم اور سائنس کا غلبہ ہے، اپنی تہ میں وحشی، قدیمی اور بے رحم قوتیں چھپائے ہوئے ہے۔ کسی مناسب وقت پر آدمی خود اپنی تہذیب کو فتح کر لے گا اور وحشی قوتیں بے مہار ہو جائیں گی۔

پرومیتھیس کی مانند کوئی یک رخے ذہن کا حامل آدمی اٹھے گا، مطلق مثالیت اور مطلق بربریت کا فرق مٹا دے گا۔ ایسے میں اگر کوئی امید باندھی جا سکتی ہے تو صرف جدید آرٹ سے۔

جوزف کونراڈ کا قلب ظلمات، کافکا کے کایا کلپ، بھوکا فن کار، تعزیری آبادی، ٹامس مان کا جادوئی پہاڑ اور ای ایم فاسٹر کے سفرِ ہند میں نطشے کی جدلیاتی اسکیم دکھائی دیتی ہے۔
پہلی عالمی جنگ (1914۔1918 ) نے نطشے کی پیش گوئی درست ثابت کی۔ آسٹریا کے شہزادے کے قتل سے شروع ہونے والی یہ جنگ کسی آسمانی عفریت کی نازل کردہ نہیں تھی، اس کے اسباب خود یورپ نے اپنی جدید، صنعتی، سرمایہ دارانہ، قومی نسل پرستانہ تہذیب کی تشکیل کے دوران میں پیدا کیے تھے۔

اس سے پہلے جنگیں محدود سیاسی اور معاشی مقاصد کے لیے لڑی جاتی تھی۔ ایرک ہوبسبام کے بہ قول اس جنگ کے مقاصد لامحدود تھے۔ اسٹینڈرڈ آئل، ڈیوچے بینک، ڈی بیرز ڈائمنڈ کمپنی کی حدود کائنات کے آخری سرے تک پھیل رہی تھی، یہاں تک کہ ان کا مزید پھیلنا ممکن نہیں رہا تھا۔ جرمنی اور برطانیہ، اس جنگ کے دو بڑے کھلاڑی تھے اور دونوں کے لیے آسمان آخری حد تھا۔ جرمنی عالمی سیاسی اور بحری طاقت چاہتا تھا جس کی راہ میں برطانیہ رکاوٹ تھا۔ فرانس بھی عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھتا تھا۔

یورپ کے قوم پرست، سرمایہ دار حکم رانوں نے اپنی طاقت میں اضافے کے لیے آسمان کو آخری حد سمجھا تھا اور یورپ کے عوام نے موت، بربادی اور دہشت کی آخری حدوں کو دیکھا اور بھگتا۔

نطشے، مارکس اور کچھ دوسرے مغربی دانشور جدید، مہذب، سائنس و صنعت میں مسلسل ترقی کرتے یورپ کے تاریک اور بھیانک رخ کی نشان دہی کر رہے تھے۔ جنگ، جدید سرمایہ دارانہ تہذیب کی راست پیداوار تھی جس جدید تہذیب پر یورپ فخر کرتا تھا، اس کے ضمن میں، بہ قول فرائیڈ، جنگ نے واضح کیا کہ دنیا بھر میں تہذیب و جدیدیت و ترقی کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے یورپ سے متعلق ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔“

یعنی اس جنگ نے جدید تہذیب سے متعلق ازالۂ التباس (disillusionment) کر دیا۔ فرائیڈ کی مایوسی کا ایک سبب، سفید یورپی نسل کی ذہنی، فکری، جمالیاتی اور سائنسی و فنّی ترقی میں یقین بھی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وحشی اور کم مہذب اقوام میں جنگیں جدید عہد میں بھی ممکن ہیں مگر:

سفید نسل کی عظیم حکم ران قومیں جو بنی نوع انسان کی قیادت کر رہی ہیں، جن کے مفادات دنیا بھر میں پھیلے ہیں اور جنہوں نے فطرت کو قابو پا کر ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے، نیز فن کارانہ اور سائنسی ثقافت کے معیارات تخلیق کیے ہیں، وہ اپنے اختلافات کو کسی دوسری طرح سے طے کریں گی۔

(ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب جدیدیت اور نوآبادیات سے اقتباس)

Comments

- Advertisement -