ایک دن صبح مسٹر عارفی دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلے تو ان کے ساتھ یہ عجیب معاملہ پیش آیا۔
مسٹر عارفی شہر کے شمالی علاقے میں جدید وضع کے ایک نو تعمیر مکان میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی عمر چالیس پینتالیس سال کی رہی ہو گی۔ چھوٹا قد، ڈھلکے ہوئے کندھے، پچکا ہوا پیٹ، دبلا بدن، چلتے میں ان کے ہاتھ دونوں طرف بے جان سے جھولتے رہتے تھے۔ مسٹر عارفی تھوڑا آگے جھک کر تیز تیز قدموں سے چلتے تھے۔ ان کے بدن کی خمیدگی ان کی پرچھائیں میں بھی ظاہر ہوتی تھی اور مسٹر عارفی کو ایسا نظر آتا تھا کہ کوئی کبڑا ٹھنگنا، چوڑا چکلا آدمی کبھی ان کے برابر برابر، کبھی آگے آگے چل رہا ہے۔
مسٹر عارفی کتھئی رنگ کا معمولی سا کوٹ پتلون پہنے اور ہلکی بادامی ٹائی باندھے ہوئے تھے۔ قمیص کا کلف دیا ہوا سفید کالر کوٹ سے ایک انگل اوپر نکلا ہوا تھا۔ مسٹر عارفی اپنے لباس اور ظاہری ہیئت کی زیادہ پروا نہیں کرتے تھے۔ اگر ان کی جوان بیٹی ان کا خیال نہ رکھتی تو انھیں ہفتوں قمیص بدلنے یا کوٹ پتلون پر استری کرنے کا دھیان بھی نہ آتا۔
مسٹر عارفی کا مکان شاہراہ سے دور پڑتا تھا۔ راستے میں ڈامر کی بہت سی لمبی لمبی پیچ دار گلیاں ملتی تھیں جو مسٹر عارفی کو ان کے گھر سے لیتیں اور اپنے پیچ و خم میں گھماتی پھراتی ہوئی سڑک کے سب سے قریب والے بس اسٹاپ پر پہنچا دیتی تھیں۔ اس طرح مسٹر عارفی کو اتنا وقت مل جاتا تھا کہ اسٹاپ پر ذرا سستا کر سانسیں بھی درست کرلیں اور ٹھیک وقت پر دفتر پہنچنے کا اطمینان بھی کر لیں۔ تب وہ آرام کے ساتھ اسٹاپ پر کھڑے ہوکر بس کی راہ دیکھنے لگتے تھے۔
اس صبح بھی جب مسٹر عارفی گلیوں اور نئے بنے ہوئے ہم وضع مکانوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے سڑک پر آئے تو ان کے قدموں نے ہمیشہ کی طرح انھیں بس اسٹاپ پر پہنچا دیا۔
اسٹاپ پر کوئی نہیں تھا۔ مسٹر عارفی پہلے آدمی تھے۔ سڑک کی بتیاں ابھی تک جل رہی تھیں۔ مسٹر عارفی اپنی مقررہ جگہ پر کھڑے ہوگئے۔ وہ ہاتھ میں اپنا بڑا سا کالا بیگ سنبھالے ہوئے تھے اور ان کی نگاہیں ڈامر کی سرمئی سڑک پر جمی ہوئی تھیں۔ سڑک آگے بڑھتی ہوئی ایک اونچی خوبصورت بلڈنگ کا چکر لگا کر دور ہوتی چلی گئی تھی۔ مسٹر عارفی کی جیبی گھڑی کی ٹک ٹک اور سینے میں دل کے دھڑکنے کی صدا کے سوا، جو اُن کے کانوں میں ہلکی ہلکی آرہی تھی، کہیں کوئی آواز نہیں تھی۔ وہ اپنے گرد و پیش سے بے خبر تھے۔ ہرے بھرے درخت ہوں یا شان دار عمارتوں پر سنہرا رنگ پھیرتا ہوا حسین چمکیلا سورج، انھیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سڑک کے کنارے والی نہر کی سریلی آواز جو ان کے چاروں طرف گنگنا رہی تھی، ان کو نہیں سنائی دے رہی تھی۔ چہرے کو تھپکتی ہوئی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کی طرف ان کی ذرا بھی توجہ نہیں تھی۔
ان کونظر نہیں آرہا تھا کہ درختوں کی پتیاں کس طرح سبز پرندوں کی مانند ہوا کے جھونکوں سے ہلتی ہوئی ٹہنیوں میں اٹکھیلیاں کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ سڑک کے اس پار سنگ تراش کی دکان میں سرخ گلابوں کا خوبصورت گل دان بھی ان کی نگاہوں کو اپنی طرف نہ کھینچ سکا۔
مسٹر عارفی سڑک کے ڈامر کی پختگی اور چکنائی کی دید میں محو تھے۔ اگر وہ سَر اٹھاتے بھی تو ان کی نگاہ سامنے والی بلڈنگ کی آخری منزل سے اوپر نہ جاتی، اور صبح کا نیلگوں آسمان اور اس میں آزادی سے اڑتے اور فضا کو متحرک کرتے ہوئے پرندے ان کو نظر نہ آتے۔ ان کی نگاہیں ڈامر کی صاف ستھری پٹی پرجمی ہوئی تھیں اور وہ بس کا انتظار کر رہے تھے۔
بس سڑک کے موڑ پر نظر آئی تو مسٹر عارفی چونچال ہوگئے۔ وہ ایک قدم آگے نکل آئے اور ان کی آنکھیں چمکنے لگیں، انھوں نے بس کو تعریفی نظروں سے دیکھا، ’’کیا سجیلی چیز ہے! بے آواز، تیز رفتار، نہ گھڑ گھڑ، نہ کھڑ کھڑ، بالکل جیسے اڑن گھوڑا!‘‘ مسٹر عارفی کا جی چاہنے لگا کہ جلد سے جلد بس کی سیٹ پر بیٹھ کر اونگھنا شروع کر دیں۔
’’کیسی نرم نرم آرام دہ سیٹیں ہوتی ہیں! مشینی صنعت کا شاہکار!‘‘
بس ان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ مسٹر عارفی اس کو دھیرے دھیرے قریب آتے دیکھ رہے تھے۔ دفتری یاد داشتوں اور سرکاری خطوں سے بھرے ہوئے بیگ کو مضبوطی سے پکڑ کر وہ بس کے رکنے کا انتظار کرنے لگے۔
سنسان سڑک دن کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ بس کے انجن کی ہلکی ہلکی گھرگھراہٹ ان کے نزدیک آتی جارہی تھی۔ نرم ہوا نے مسٹر عارفی کے چہرے کو سہلایا، آس پاس کے درختوں پر سوئے ہوئے پرندوں نے جاگ کر پَر پھڑپھڑائے، نہر کا مدھم شیریں نغمہ ان کے کانوں کو چھونے بڑھا، اُس پار سنگ تراش کے گل دان میں سرخ گلاب نے ان کی طرف شعلے کی طرح زبان لپکائی، ان کے سر پر ایک پرندہ زور زور سے چہچہانے لگا۔
اچانک مسٹر عارفی اچھل پڑے۔ ان کی آنکھیں پھیل گئیں اور وہ بوکھلا کر کئی قدم پیچھے ہٹ گئے۔ بس قبلِ تاریخ کے کسی حیوان کی طرح سیدھی ان کی طرف بڑھتی چلی آرہی تھی۔ اگر وہ بھاگ کر نہر کے اُدھر والے فٹ پاتھ پر نہ چڑھ گئے ہوتے تو بس نے انھیں روند ہی ڈالا تھا۔ مسٹر عارفی نے نہر کے کنارے فٹ پاتھ پر سے بس کو دیکھا کہ اسٹاپ کے اندر گھستی چلی جارہی ہے۔ اس کے زبردست آہنی پیکر سے پورا اسٹاپ بھر گیا تھا۔
مسٹر عارفی کے دیکھتے دیکھتے بس نے بڑے آرام سے نہر کو پار کیا اور فٹ پاتھ کا رخ کر کے ان کی طرف بڑھی۔ مسٹر عارفی پھر کئی قدم پیچھے ہٹے اور بس کی طرف گھونسا تان کر بڑے غصے سے چیخے، ’’ابے گدھے! کہاں چڑھائے دے رہا ہے؟‘‘ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ بس اب بھی انھیں کی طرف چلی آرہی ہے تو وہ فٹ پاتھ پر بھاگ کھڑے ہوئے۔ کچھ دیر کے بعد رکے اور مڑ کر دیکھنے لگے۔ بس گھوم کر فٹ پاتھ پر آگئی تھی اور اس کا رخ پھر ان کی طرف ہوگیا تھا۔ اس وقت ان پر انکشاف ہوا کہ بس کے اندر کوئی بھی نہیں ہے۔ بغیر ڈرائیور اور بغیر کنڈکٹر کے وہ ان کی سمت چلی آرہی تھی اور اس کے انجن کی گھرگھراہٹ تیز ہوگئی تھی۔
مسٹر عارفی مڑ کر بھاگے۔ ڈامر کا فٹ پاتھ بالکل ہموار تھا۔ مسٹر عارفی سرپٹ دوڑ رہے تھے اور ان کے قدموں کی آواز فٹ پاتھ پر گونج رہی تھی۔ ان کے بڑے سے سیاہ بیگ کا کھٹکا کھل گیا تھا اور اب وہ ان کے پیروں سے ملا ملا یوں جھولتا جارہا تھا کہ ہر پینگ کے ساتھ مسٹر عارفی کا ہاتھ آگے پیچھے جھٹکے کھا رہا تھا۔ کوئی سو قدم کی دوڑ لگانے کے بعد مسٹر عارفی رکے، پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ بس اسی طرح ان کا تعاقب کر رہی تھی۔ مسٹر عارفی جلدی سے مڑے اور پھر بھاگ کھڑے ہوئے۔
وہ جتنا بھی تیز دوڑتے، بس کے انجن کی گھرگھراہٹ انھیں اپنے پیچھے ہی سنائی دیتی۔ وہ جب بھی مڑ کر دیکھتے، اس کا بڑا سا عفریتی ہیولا ان کو اپنے سر پر منڈلاتا دکھائی دیتا۔ مسٹر عارفی زقند بھرتے اور پہلے سے بھی زیادہ تیز بھاگنے لگتے۔ دھوپ ان کے قدموں میں بچھتی جارہی تھی۔ اس کی خوشگوار گرمی سے ان کو اتنی طاقت اور حرارت مل گئی تھی کہ اور بھی تیز دوڑ کر بس سے کچھ اور دور ہو جائیں۔ ایک سڑک طے کرنے کے بعد ان کی سانس پھولنے لگی۔ انہیں ایک تنگ سی گلی نظر آئی اور وہ لپک کر اس میں مڑ گئے۔ گھرگھراہٹ کی آواز ان کی پشت پر اسی طرح موجود تھی۔
وہ گلی میں تھوڑی ہی دور تک بھاگے ہوں گے کہ ان کا دم ٹوٹ گیا اور وہ رک گئے۔ گرمی کے مارے وہ پسینے پسینے ہو رہے تھے۔ انھوں نے جیب سے رومال نکال کر چہرہ پونچھا۔ رومال تہ کیا اور واپس جیب میں رکھ لیا۔ ٹائی کی گرہ ڈھیلی کی اور اطمینان کی سانس لی۔ جھکے اور اپنے دکھتے ہوئے پیروں کو دبانے لگے۔ وہ ایک دیوار کے موکھے میں بیٹھ گئے، تھکا ہوا بدن دیوار سے ٹکا لیا۔ بیگ دیوار سے لگا کر رکھ دیا۔ پاؤں پھیلائے اور ان کا منھ کھلا،’’اوف فف۔۔۔‘‘
گھرگھراہٹ کی آواز سن کر وہ اچک پڑے۔ بس گلی کے اندر گھسی چلی آرہی تھی۔ مسٹر عارفی نے اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا، دیوار کے پاس سے بیگ اٹھایا اور پھر بھاگنے لگے۔ ان کی راہ میں جدید ساخت کے ہم وضع مکان اور پکّے راستے پڑ رہے تھے جنھیں تعمیر کے تازہ ترین اصولوں کے مطابق تیار کیا گیا تھا۔ مسٹر عارفی گلیوں سے ہوتے اور مکانوں کے سامنے سے گزرتے اڑے چلے جارہے تھے، اور بس ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ مکانوں کی اونچی دیواروں نے دھوپ کو گلیوں میں اترنے سے روک دیا تھا اور گلیوں میں ان کا دائمی سایہ پھیلا ہوا تھا۔ خوبصورت ستھرے مکانوں کے سامنے دوڑتے دوڑتے اور سایہ دار گلیوں میں داہنے سے بائیں اور بائیں سے داہنے مڑتے مڑتے مسٹر عارفی کا سر گھومنے لگا تھا اور بس اسی طرح ان کے پیچھے پیچھے چلتی نظر آرہی تھی۔
راستے میں ہر طرف گلیاں تھیں اور مکان، ہر طرف نئی نئی سر بہ فلک عمارتیں تھیں۔ دوڑتے ہی میں ان کو کھڑکیوں کے شیشوں کے پیچھے عورت مرد دکھائی دے رہے تھے جو مکانوں کی صفائی ستھرائی اور جھاڑ پونچھ میں لگے ہوئے تھے۔ ویکیوم کلینر اور واٹر پمپ کی آوازیں بلند تھیں۔ مرد عورت لپک جھپک کر اِدھر اُدھر آجا رہے تھے اور اپنے اپنے کام میں منہمک تھے اور کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ نہیں تھے۔ ان کے جذبات سے عاری چہرے شیشوں کے پیچھے بار بار ظاہر اور غائب ہو رہے تھے۔ مسٹر عارفی نے ان کو آوازیں دیں، مدد کے لیے پکارا اور ہاتھ ہلا ہلا کر ان کو متوجہ کرنا چاہا، لیکن کھڑکیوں کے دبیز شیشوں اور پتھریلی دیواروں اور کلینر اور پمپ کے شور نے ان کی فریاد کو بے اثر کر دیا۔ لوگ گھروں کے اندر اپنے اپنے کاموں میں ایسے لگے ہوئے تھے کہ انھیں کسی اور بات کی خبر نہ تھی۔ کسی نے سر تک نہیں اٹھایا کہ مسٹر عارفی کو دیکھے اور بس کی آواز سنے۔ مسٹر عارفی ان کو، ان کی سرگرمیوں کو، ان کی آمد و رفت کو دیکھ سکتے تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی مسٹر عارفی کو نہیں دیکھ رہا تھا۔ مسٹر عارفی کی نگاہوں کے سامنے گویا سنیما کے پردے پر ایک فلم چل رہی تھی اور لوگ شیشوں کے پیچھے متحرک تصویروں کی طرح آجا رہے تھے اور اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔
بس نالوں نہروں کو عبور کرتی، درختوں سے کتراتی، گلیوں کے پیچ و خم سے نکلتی مسٹر عارفی کے پیچھے پیچھے چلی آرہی تھی۔ حواس باختہ مسٹر عارفی جب بھی گھوم کر دیکھتے، بس کو اپنے پیچھے پاتے۔ جس راہ بھی مڑتے اورجس طرف بھی بھاگتے، بس انھیں پیچھے ہی دکھائی دیتی۔
مسٹر عارفی اچانک پلٹ پڑے۔ انھوں نے زمین پر سے اینٹ کا ٹکڑا اٹھا کر بس پر کھینچ مارا اور تہدیدی انداز میں اس کی طرف ہاتھ لہرانے لگے۔ ایک بار وہ ہانپتے ہوئے بیچ سڑک پر کھڑے ہوگئے اور رونے چلّانے لگے۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ بس ان کی تمام دھمکیوں، احتجاجوں اور فریادوں سے بے نیاز اسی طرح ان کی طرف چلی آرہی ہے اور قریب ہے کہ ان کو کسی دیوار سے مسل دے، تو وہ پھر مڑے اور بھاگنے لگے۔
ہانپتے کانپتے ایک پوری سڑ ک طے کر کے وہ خوشنما مکانوں اور پکی سڑکوں کے پچھواڑے ایک کھلے ہوئے احاطے میں جا نکلے۔ ہر طرف عمارتی کھمبے اٹھے ہوئے تھے۔ بار بردار مشینیں ایک کے پیچھے ایک آتیں اور مسالا ڈھیر کر کے چلی جاتیں۔ ہر طرف بجری، کنکریٹ، بالو، راکھی، چونے کے بڑے بڑے ڈھیر نظر آرہے تھے۔
مسٹر عارفی کی ناک میں مٹی کی سوندھی خوشبو آئی اور ان کو اپنے بچپن کے دن یاد آگئے جب وہ دوسرے بچوں کے ساتھ مٹی کے انباروں پر چڑھتے اور خوشی سے چیختے اور گرد اڑاتے ہوئے اوپر سے نیچے پھسلتے تھے۔ انھیں اپنی پشت پر بس کی گھرگھراہٹ سنائی دی اور وہ بدحواس ہو کر آگے کو دوڑے اور کنکریٹ کے ایک انبار پر چرھتے چلے گئے۔
چاروں ہاتھ پیروں سے وہ کنکریٹ کے انبار پر چڑھ رہے تھے اور ہانپ رہے تھے۔ بڑے سے بیگ کو وہ اپنے پیچھے پیچھے کنکریٹ پر گھسیٹ رہے تھے۔ کنکریٹ کے ریزے ان کے پیروں سے ہل ہل کر کھر کھر کرتے نیچے لڑھک رہے تھے۔ وہ خود کو گھسیٹتے ہوئے انبار کی چوٹی تک لے گئے۔ اب وہ تھک کر چُور ہو چکے تھے۔ ان کی آنکھو ں نے دیکھا کہ کنکریٹ کے انباروں کے اس طرف ایک سبز میدان دور تک چلا گیا ہے اور سارے میں حسین سنہری دھوپ پھیلی ہوئی ہے۔ جا بہ جا پرانے ہرے بھرے درختوں کے خوبصورت باغ لگے ہوئے ہیں۔ دور سے چڑیوں کی چہکار اور بہتے پانی کی آواز آرہی ہے۔ مسٹر عارفی بے اختیار اس میدان کی طرف لپکے۔ لیکن چند قدم بھی نہ بڑھے ہوں گے کہ تھکن سے ان کے گھٹنے جواب دے گئے۔ وہ کنکریٹ کے انبار پرلڑھکنے لگے اور بے ہوش ہوگئے۔
مسٹر عارفی کو ہوش آیا تو ان پر بس کی بڑی سی سیاہ پرچھائیں پڑ رہی تھی اور اس کے انجن کی آواز ان کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ انھوں نے بس کو دیکھا کہ ان کے پاس ہی کھڑی ہے اور نزدیک سے دیکھنے پر اور بھی خوبصورت نظر آرہی ہے۔ اس کی چوڑی چکلی باڈی کو دیکھ کر رعب پڑتا تھا۔ اس کے انجن کی ہلکی ہموار گھرگھراہٹ فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ مسٹر عارفی کی تعریفی نظریں بس پر جم گئیں اور ان کے ہونٹ ہلے، ’’کیا ڈیزائن ہے، کتنی حسین! صنعت کا شاہکار۔۔۔‘‘
وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بس کے بڑے خوش وضع پہیے اور اس کی چمچماتی ہوئی پلیٹ پر ہاتھ پھیرنے اور انگلیاں دوڑانے لگے۔ بمپر پر ہاتھ ٹیک کر وہ کھڑے ہوئے اور بس کی چمک دار باڈی میں اپنا عکس دیکھ کر ہنس پڑے۔ اس کے سامنے کھڑے ہو کر انھوں نے ٹائی کی گرہ درست کی اور اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ کپڑے جھاڑے اور بس کے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
بڑا سا وزنی بیگ ہاتھ میں لٹکائے اوراپنی جیبی گھڑی کی ٹک ٹک سنتے ہوئے وہ بس پر چڑھے اور کھڑکی کے پاس کی آرام دہ گدے دار سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ان کو اپنا سارا بدن دکھتا محسوس ہورہا تھا۔ بس چل پڑی۔ مسٹر عارفی نے کھڑکی کے شیشے میں سے آخری بار دھوپ میں چمکتے ہوئے سبزہ زار اور پرانے ہرے بھرے باغوں کا منظر دیکھا۔ چڑیوں کی چہکار اور پانی کی گنگناہٹ سنی۔ پھر انھوں نے سیٹ کی نرم پشت سے ٹیک لگالی اور آنکھیں بند کرلیں۔
بس نے کنکریٹ کے انباروں کا چکر لگایا اور جدید وضع کے صاف ستھرے مکانوں اور ڈامر کی سڑکوں کی طرف بڑھنے لگی۔ گھروں سے اٹھتے ہوئے دھویں کی لکیروں نے شہر پر ایک کالا بادل تان دیا تھا۔ اس کالے بادل کے نیچے تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی بس شہر کے چھوٹے چھوٹے ہم وضع مکانوں کی اوّلین قطاروں کے نزدیک پہنچ رہی تھی۔ اس کے پیچھے پانی کی آواز اور چڑیوں کی چہکار مدھم پڑتی جارہی تھی۔
(ایران کے افسانہ نگار جمال میر صادقی کی تحریر کا ترجمہ نیّر مسعود نے کیا ہے جس کا فارسی عنوان ’’آن سوی تل ہائی شن‘‘ ہے)