کراچی: نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس کے زیرِاہتمام آغاحشرکاشمیری کا شہرہ آفاق تھیٹرڈرامہ یہودی کی لڑکی 16 فروری سے ادارے کے آڈیٹوریم میں عوام کے لیے پیش کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق ناپا ریپرٹری تھیٹرنے پاکستان میں تھیٹر کے احیاء اور تھیٹر بینی کے شوق کو مہمیز کرنے کے لیے ہندوستانی شیکسپیئر کے نام سے پہچانے جانے والے معروف ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے یہودی کی لڑکی کو تھیٹر کے روایتی انداز میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈرامے کی ہدایت کاری کے فرائض خالد احمد نے انجام دیئے ہیں جبکہ اس موسیقی ارشد محمود نے محض دو سازوں کی مدد سے ترتیب دی ہے۔
ڈرامے کی کاسٹ دو حصوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک حصہ المیہ ہے جبکہ دوسرا مزاحیہ ہے جو کہ برصغیر کے تھیٹر کا خاصہ ہے۔ ڈرامے میں ٹریجڈی والے حصے میں اکبراسلام‘ فوادخان‘ نذرالحسن‘ ماریا‘ سعدفریدی‘ عامرنقوی‘ سمحان غازی‘ مظہرسلیمان‘ فریال نوشاد اور اشفاق احمد شامل ہیں۔ ڈرامے میں مزاح کا رنگ فرحان عالم‘ زرقا ناز‘ فرازچھوٹانی‘ عثمان مظہر‘ حمادخان ارہافی طحہٰ شامل ہیں۔
ناپا ریپرٹری تھیٹر کے زیراہتمام پیش کیے جانے والے کھیلوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں ہدایت کاری سے لے اداکاری تک سب اموراسی ادارے سے متعلقہ افراد کےذمے ہوتے ہیں اور کم بجٹ کے باوجود معیار کا بے پناہ خیال رکھا جاتا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ’’خالد احمد کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی حد تک کوشش کی ہے کہ اداکاری اور گائیکی کے اسی انداز کو قائم رکھیں جو سنتے آئے ہیں کہ اس دور کے ڈراموں میں اپنایا جاتا تھااور جس کی جھلک ہندوستان کی ابتدائی فلموں میں موجود ہے۔چنانچہ ڈائیلاگ کی ادائیگی میں حقیقت پسندی سے احتراز ایک شعوری کوشش ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’البتّہ سیٹ ڈیزائن اور پوشاک اور تزئین کے معاملے میں ہم اس دور کی پیش کش کے معیار کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانے میں ان عناصر پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کر کے(اس زمانے کے حساب سے کئی لاکھ) انہیں ایسا حیرت انگیز بنا دیا جاتا تھا کہ تماشائی ششدر رہ جائیں‘‘۔
اردو کے بے حد مختصر سے ڈرامائی ورثے میں جو گنتی کے لوگ آتے ہیں ان میں سر ِ فہرست آغا حشر کاشمیری کا نام ہے۔آپکا تعلق اسی روایت سے تھاجسے پارسیوں نے شروع کیا تھا اور جو اسی مناسبت سے پارسی تھیٹر کہلایا۔
یہ میلوڈرامہ کا ایک مخصوص انداز ہوتا تھا اور اس کے خاص عناصرتھے، ادائیگی میں خطابانہ گھن گرج، ہم قافیہ نثر، ڈائیلاگ کو پر اثر بنانے کے لئے شاعری کا بکثرت استعمال، موقع بہ موقع گانوں کا استعمال اور کامیڈی (جسے کامک کہا جاتا تھا)۔
بعد میں جب برصغیر میں فلم سازی کا آغاز ہواتو اسی انداز کو بطور پیٹرن اپنا لیا گیا اورآج بھی پاکستان اور ہندوستان کی بیشتر فلمیں اسی فارمیٹ پربنتی ہیں۔