تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزرا قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

وہ چند نام جو محنت، لگن اور مستقل مزاجی کی بدولت نام وَر ہوئے

کام یابی وہ لفظ ہے جو ہماری زبان سے بھی آئے روز ادا ہوتا ہے اور پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران دوسروں کی زبانی بھی سنتے رہتے ہیں۔ آپ کوئی بھی کام کرتے ہوں، کسی بھی شعبہ ہائے حیات سے وابستہ ہوں اور کسی بھی ادارے میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوں، دنیا کے چند کام یاب لوگوں بارے میں آپ نے ضرور کچھ باتیں پڑھی یا سنی ہوں گی۔

You Can Win وہ کتاب ہے جو 1998ء میں منظرِ عام پر آئی اور بہت مقبول ہوئی۔ اس کے مصنّف شِو کھیرا ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’کام یاب لوگ مختلف کام نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے کام کو مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔‘ یہ متأثر کُن جملہ ہمارے ذہن میں کام یابی کا ایک خوش رنگ اور مختلف تصوّر اجاگر کرتا ہے۔

آج اگر ہم اپنے وقت کے کام یاب ترین لوگوں کی فہرست میں شامل اکثریت کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے ابتدائی عمر میں مشکلات دیکھیں اور کٹھن حالات کا سامنا کیا، لیکن وہ وقت بھی آیا جب انھوں نے اپنی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ آج دنیا ان کی محنت، ان کے عزم و استقلال کی گواہ اور صلاحیتوں کی معترف ہے۔ آئیے چند ایسی شخصیات کے بارے میں‌ جانتے ہیں جنھوں نے ناکامیوں کو شکست دے اپنا مقدّر سنوارا۔

البرٹ آئن اسٹائن
دنیا کے کام یاب ترین افراد کی فہرست میں یہ نام اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اسے غربت، مفلسی یا سماجی ناہمواری اور طبقاتی نظام سے نہیں بلکہ ایک طبّی مسئلے کی وجہ سے 9 سال تک مشکل اور اذیت کا سامنا رہا۔ اسے بولنے میں‌ دشواری پیش آتی تھی۔ ذہین اور باصلاحیت آئن اسٹائن کی ابتدائی زندگی ناکامیوں سے عبارت تھی۔ اس کے مزاج میں شدّت اور باغیانہ سوچ بھی اس کے راستے میں رکاوٹیں‌ پیدا کرتی تھی۔ اسی سبب وہ اسکول سے نکالا گیا۔ لیکن وہ دنیا کا عظیم سائنس داں بنا۔ 1921ء میں آئن اسٹائن نے طبیعیات کا نوبل انعام بھی حاصل کیا۔

والٹ ڈزنی
بچّوں اور بڑوں سبھی میں یکساں مقبول کارٹون کردار مِکی ماؤس کے خالق والٹ ڈزنی بھی اپنے وقت کے کام یاب لوگوں میں‌ نمایاں ہیں۔ ان کا نام ابتدا میں ملٹری اسکول سے خارج کردیا گیا تھا۔ وہ بڑے ہوئے تو اپنا اسٹوڈیو قائم کیا اور اس شعبے میں ناکامیوں کا منھ دیکھا۔ اسٹوڈیو دیوالیہ ہوگیا تھا۔ انھیں کوئی نوکری بھی نہیں مل رہی تھی اور کسی اخبار میں‌ اپنے فن کی بدولت کام بھی حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ کاروبار کرنے کے لیے جو قابلیت اور سوجھ بوجھ درکار ہوتی ہے، وہ اس سے محروم ہیں۔ صحافت کے شعبے میں انھیں تخلیقی شعور سے محروم تصوّر کیا جاتا رہا لیکن مِکی ماؤس نے والٹ ڈزنی کی قسمت چمکا دی انھیں لازوال شہرت اور نام و مقام حاصل ہوا۔

اسٹیو جابز
نئی نسل بالخصوص کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں آنکھ کھولنے والے مشہورِ زمانہ کمپنی ایپل اور اس کے بانی سے بھی واقف ہیں۔ اسٹیو جابز نے اس کمپنی کا آغاز ایک گیراج سے کیا۔ 1985ء میں انھیں اپنی ہی قائم کردہ کمپنی سے باہر کر دیا گیا۔ اس عرصے میں انھوں‌ نے مزید کمپنیوں کی بنیاد رکھی اور کام یاب رہے۔ یہاں تک کہ ان کی محنت اور لگن نے انھیں ایک بار پھر ایپل کمپنی تک پہنچا دیا جہاں وہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے طور پر کام یاب رہے۔

میڈونا
عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ میڈونا کا بچپن والدہ کے بغیر گزرا۔ میڈونا نے پانچ برس کی عمر تک تو ماں کی گود دیکھی اور ان کے مہربان لمس کی حدّت پائی، لیکن ایک روز وہ اپنی ننھّی بیٹی سے ہمیشہ کے لیے دور چلی گئیں۔ ڈانسر اور گلوکارہ بننے کا خواب میڈونا کو نیویارک لے گیا تھا، لیکن جیب خرچ اور اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے معمولی نوکری کرنا پڑی۔ وہ ایک ڈونٹ شاپ میں کام کرنے لگی، لیکن مالک نے جلد ہی اسے فارغ کر دیا۔ یہ اس زمانے کی میڈونا کا مشکل وقت تھا، لیکن شوق اور لگن نے اسے آگے بڑھنے کی طاقت دی۔ وہ حالات سے لڑتی رہی اور اس نے اپنے خواب کی تکمیل کے لیے مختلف علاقائی میوزک گروپوں سے ناتا جوڑا۔ وہ ان کے ساتھ مختلف مواقع پر گلوکاری کا شوق پورا کرتی اور اسی فن میں ترقی کی خواہش لیے آگے بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت آیا جب میڈونا نے اپنے گانوں کے البمز مارکیٹ کیے اور آج دنیا اسے ایک عظیم گلوکارہ کے طور پر جانتی ہے۔

بل گیٹس
اسٹیو جابز کی طرح مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے نام اور ان کی جدوجہد سے سبھی واقف ہیں۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی تعلیم ادھوری چھوڑ کر کاروبار کی طرف آئے تھے اور شدید خسارہ اٹھایا۔ لیکن بِل گیٹس نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اپنی صلاحیتوں کو آزماتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور دن رات کام کرکے کام یابی سمیٹی۔ انھوں نے مائیکرو سافٹ کمپنی کی بنیاد رکھی اور دنیا کے لیے مثالی بزنس مین بنے۔

اوپرا وِنفری
ٹیلی ویژن پروگرام کے میزبان کی حیثیت سے انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی۔ اوپرا ونفری کو اکثر ٹاک شوز کی بے تاج ملکہ کہا جاتا ہے۔ اوپرا ونفری ایک انتہائی غریب گھرانے کی فرد تھیں۔ ان کی زندگی میں تلخیاں اور مشکلات ہر طرح سے ان کے لیے رکاوٹ بنے، لیکن ونفری نے محنت سے جی نہیں چرایا۔ وہ امریکا کی مقبول ٹی وی میزبان ہی نہیں کام یاب فلم ساز اور بعد میں اداکارہ بھی بنیں۔ اوپرا ونفری کا ٹی وی شو دنیا بھر میں مشہور ہوا۔

Comments

- Advertisement -