جمعہ, دسمبر 6, 2024
اشتہار

قصور کی ننھی زینب کا قاتل عبرتناک انجام کو پہنچا، مجرم عمران علی کو پھانسی دے دی گئی

اشتہار

حیرت انگیز

لاہور: قصور کی ننھی زینب کا قاتل اپنے عبرتناک انجام کو پہنچ گیا، مجرم عمران علی کو کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

تفصیلات کے مطابق قصور کی زینب اور دیگر معصوم بچیوں کے قاتل عمران علی کو صبح ساڑھے پانچ بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا، اس دوران کوٹ لکھپت جیل کے پھانسی گھاٹ میں بھرپور انتظامات کیے گئے اور سیکیورٹی بھی سخت تھی۔

ڈاکٹرز کی ٹیم نے درندہ صفت مجرم عمران علی کا پھانسی سے قبل طبی معائنہ بھی کیا تھا۔

- Advertisement -

مجرم عمران علی کی ورثاء سے آخری ملاقات بھی کرائی گئی تھی، خاندان کے اٹھائیس افراد ڈیتھ سیل میں ملے تھے، مجرم کی لاش میڈیکل آفیسر کی رپورٹ کے ساتھ ورثا کے حوالے کردی جائے گی۔

مجسٹریٹ عادل سرور کی موجودگی میں مجرم  کو پھانسی دی گئی، سزا پر عمل درآمد کے وقت زینب کے والد بھی پھانسی گھاٹ میں موجود تھے، پھانسی کے بعد لاش لے جانے کے لیے ایمبولینس جیل کے باہر موجود ہے۔

مجرم عمران کی پھانسی سے قبل زینب کے والد امین انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں، سرعام پھانسی پوریپ قوم کا مطالبہ تھا، مجرم کو سرعام پھانسی دی جاتی تو زیادہ اطمینان ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجرم عمران کو سرعام پھانسی کی سزاد لوانا چاہتے تھے، میڈیا نے ہماری آواز کو بلند کیا، چیف جسٹس آف پاکستان کے شکر گزار ہیں، سرعام پھانسی دے کر مثال قائم کرنے کا موقع تھا، زینب کی ماں شدید صدمے سے دوچار ہے۔

واضح رہے کہ 12 اکتوبر کو انسداد دہشت گردی عدالت نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے تھے، سفاک قاتل کو عدالت نے 16 مرتبہ موت کی سزا سنائی تھی۔

زینب قتل کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ رواں برس جنوری میں قصور کی ننھی زینب کے بہیمانہ قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ننھی زینب کو ٹیوشن پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں اغوا کیا گیا تھا جس کے دو روز بعد اس کی لاش ایک کچرا کنڈی سے برآمد ہوئی۔

زینب کو اجتماعی زیادتی، درندگی اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گئی تھی۔ زینب کے قتل کے بعد ملک بھرمیں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور قصور میں مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔

بعد ازاں زینب قتل کیس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا۔

زینب قتل کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے مختصرٹرائل تھا، جو چالان جمع ہونے کے سات روز میں مکمل کیا گیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے خلاف جیل میں روزانہ تقریباً 10 گھنٹے سماعت ہوئی اور اس دوران 25 گواہوں نے شہادتیں ریکارڈ کروائیں۔

اس دوران مجرم کے وکیل نے بھی اس کا دفاع کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد اسے سرکاری وکیل مہیا کیا گیا۔

17 فروری کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم عمران کو چار مرتبہ سزائے موت، عمر قید، سات سال قید اور 32 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں۔ عدالتی فیصلے پر زینب کے والد امین انصاری نے اطمینان کا اظہار کیا اور اس مطالبے کو دہرایا کہ قاتل عمران کو سر عام پھانسی دی جائے۔

عمران نے زینب سمیت 7 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کیا جس پر مجرم کو مجموعی طور پر 21 بار سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا۔

بعد ازاں زینب کے قاتل نے سپریم کورٹ میں سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی جسے عدالت نے مسترد کردیا، اس کے بعد عمران نے صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی تھی۔

اسی دوران ننھی زینب کے والد امین انصاری نے صدر مملکت ممنون حسین کو خط لکھ کر درخواست کی کہ زینب کے قاتل عمران کی رحم کی اپیل مسترد کردی جائے۔

6 اکتوبر کو چیف جسٹس نے زینب کے قاتل کی سزائے موت پر عمل درآمد نہ ہونے پر ایک بار پھر از خود نوٹس لیتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔

12 اکتوبر کو انسداد دہشت گردی عدالت نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے جس کے تحت مجرم کو آج تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں