تازہ ترین

زبیدہ آغا: پاکستانی تاریخ میں پہلی بار آرٹ نمائش منعقد کرنے والی مصّورہ

فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں مصوری بہت اہم اور قابلِ ذکر شعبہ ہے۔ ہمارے ملک میں ماڈرن آرٹ کے حوالے سے خاص طور پر خواتین میں جو چند نام سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک زبیدہ آغا ہے جن کا تعلق پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تھا۔ زبیدہ آغا 1922 میں پیدا ہوئیں اور ان کی زندگی کا سفر 1997 تک جاری رہا۔

قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے اسی معروف آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی تھی۔

لاہور میں خواتین کے ایک کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے سیکھنا شروع کیا۔ ان کا اپنے استاد کے ساتھ یہ سفر طویل عرصہ جاری نہ رہا۔ 1944 سے 1946 تک وہ اپنے دور کے اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرسکیں۔ ہر آرٹسٹ کی طرح پکاسو کا فن بھی زبیدہ آغا کو بھی اپنی جانب کھینچتا رہا۔ اس کے علاوہ وہ ایک قیدی فن کار  میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں جس کا تعلق اٹلی سے تھا اور وہ اس وقت انڈیا کا جنگی قیدی تھا۔

زبیدہ آغا نے اپنے تخیل اور مشاہدے کے ساتھ اساتذہ سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت کمال سے منتقل کرتی رہیں اور جلد اپنی پہچان بنا لی۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

زبیدہ آغا کو ملک کے ابتدائی فائن آرٹسٹوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جن کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملک میں ماڈرن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے کام نے فائن آرٹسٹوں اور سنجیدہ شائقین کی توجہ حاصل کر لی تھی اور پھر ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے معاصرین اور غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو سراہا۔

ان کے فن کی مہارت یا انفرادیت رنگوں کا بامعنی اور قابلِ توجہ استعمال تھا۔ اس حوالے انھیں ملک میں آرٹ کی دنیا کی کلرسٹ پینٹر کہا جاتا ہے جس سے نہ صرف شائقین پر گہرا تاثر قائم ہوتا بلکہ ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنی بناتی تھی۔

2002 میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش بھی منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے  آرٹ اور  اس فن میں مہارت  کو سراہا۔ 2006 میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔

زبیدہ آغا کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے روشناس کرواتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -