ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کیوں دی گئی؟ یہ بات آج بھی بہت سارے لوگوں کے علم میں درست طور پر نہیں ہے۔
گیارہ نومبر 1974ء کو رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری لاہور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے کہ اچانک گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس سے ان کے والد نواب محمد احمد خان جاں بحق ہوگئے۔
احمد رضا قصوری نے موقف اختیار کیا کہ ان پر فائرنگ بھٹو کے کہنے پر کی گئی، بھٹو نے ایک بار قومی اسمبلی میں مجھے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب خاموش ہوجائو تمہیں بہت برداشت کرلیا اب تمہیں مزید برداشت نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بھٹو کا جیل سے بے نظیر کو آخری خط، پڑھنے والے رو گئے
قصوری نے ایف آئی آر درج کرائی، وہ مارشل لا کے نفاذ تک چپ رہے لیکن مارشل لا لگتے ہی انہوں نے یہ معاملہ دوبارہ اٹھادیا۔
بالآخر 24 اکتوبر 1977ء کو لاہور ہائی کورٹ میں یہ معاملہ جاپہنچا جہاں مولوی مشتاق حسین چیف جسٹس ہائی کورٹ تھے۔
18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی جس کے بعد بھٹو کے وکلا نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی۔
سپریم کورٹ کے سات ججز تھے جس میں سے چار نے سزا برقرار رکھی اور تین نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو قانون کے مطابق اس وقت کے صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اپیل دائر نہیں کی اور انکار کردیا جس کے بعد چار اپریل کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔