تازہ ترین

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

پاکستان میں چلنے والے فتح گولن کے ادارے بند کرنے کی استدعا کرتے ہیں.ترک سفیر

اسلام آباد : پاکستان میں ترکی کے سفیر نے توقع ظاہر کی ہے کہ پاکستان دوست ملک ہے جو فتح اللہ گولن کے تحت چلائے جانے والے تمام اداروں کو بند کردے گا کیوں کی فتح اللہ گولن ترکی میں انتشار چاہتے ہیں اور لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق ترکی کے سفیر صادق بابر نے ترکی میں ہونے والی پیش رفت پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ انقرہ نے دوست ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے ممالک میں گولن گروپ کی سرگرمیوں کو روکیں،حکومتِ پاکستان سے توقع کرتے ہیں کہ دوست ملک ہونے کے ناطے سے وپ فتح گولن کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کو فی الفور بند کر کے شکریہ کا موقع دیں گے۔

بغاوت کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ ترک حکومت کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے پیچھے گولن تحریک تھی جو اس وقت بھی امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے ہیں اور وہیں سے اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے ترک میں انتشار اور بغاوت پھیلانا چاہتے ہیں۔

ترک سفیر نے کہا کہ پاکستان میں گولن کے تحت چلائے جانے والے اداروں کے حوالے سے ترک حکومت پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور پاکستان کے ساتھ ہر شعبے میں ہمارے اچھے تعلقات ہیں،واضح رہے کہ پاکستان میں گولن کے زیر انتظام پاک ترک سکول چل رہے ہیں۔

ترک سفیر نے ترک حکومت کی جانب سے لگائے ایمرجنسی کے نفاذ پر تنقید کرنے والے مغربی میڈیا کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ مغرب کے دوہرے معیار پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں اور واضح کردینا چاپتا ہوں کہ جس روز ترک پارلیمنٹ نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسی روز فرانس میں عائد ایمرجنسی کی مدت میں اضافہ کیا گیا لیکن فرانس کی جانب سے عائد ایمرجنسی پر چپ سادھی میڈیا ترکی میں ایمرجنسی پر چراغ پا نظر آتی ہے جو مغربی میڈیا کے کھلے تضاد کا ثبوت ہے۔

Comments

- Advertisement -