اتوار, مئی 19, 2024
اشتہار

غزہ کے بے گھر لوگوں کی سماعت ’جنگ بندی‘ کا لفظ سننے کے لیے بے چین

اشتہار

حیرت انگیز

غزہ: فلسطین کے محصور علاقے غزہ کی پٹی کے بے گھر لوگوں کی سماعتیں گزشتہ 7 ماہ سے بد ترین جنگ کا سامنا کرتے ہوئے لفظ ’جنگ بندی‘ سننے کے لیے بے چین ہیں۔

الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صہیونی فورسز کی وحشیانہ بمباریوں کی زد میں رہنے والے غزہ کے بے گھر سبھی لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے بے چین ہیں، تاہم جنگ بندی کب ہوگی، اس حوالے سے وہ پُر یقین تو نہیں لیکن امید و بیم کی حالت میں گرفتار ہیں۔

غزہ کے یہ بے گھر باشندے ٹی وی یا ریڈیو پر لفظ ’سیز فائر‘ سننے کے لیے بے چین تو ہیں ہی، تاہم یہ لفظ ان کے لیے امید کے آخری نشان کے ساتھ ساتھ ایک گہری مایوسی کا باعث بھی بنا ہوا ہے، کیوں کہ درندہ صفت اسرائیل سات ماہ سے روز ان پر بمباری کر کے ان کی زندگیوں کے چراغ گُل کر رہا ہے۔

- Advertisement -

ایسے میں یہ آئی ڈی پیز ’جنگ بندی‘ کی ایک تھکی ہوئی خواہش کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر سیز فائر ہو جائے تو ہم اپنے گھر چلے جائیں۔ کیوں کہ سات ماہ سے ایک بد ترین جنگ نے ان کی زندگی موت کی طرح بد صورت بنا دی ہے، اور 7 اکتوبر 2023 سے اب تک یہ جنگ 34,683 فلسطینیوں کی زندگیاں نگل چکی ہے جب کہ 78,018 زخمی ہوئے۔

لفظ جنگ بندی صرف غزہ کے ان بے گھر افراد ہی کی زبان پر نہیں بلکہ اب دنیا بھر کے مظاہرین کے لبوں پر بھی ہے، جو چیخ چیخ کر دنیا سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کو وحشیانہ نسل کشی سے روکا جائے، جو نہ صرف بمباری کر کے فلسطینیوں کو ختم کر رہا ہے بلکہ خوراک اور طبی امداد روک کر بھی انسانوں کو مارنے کا بد ترین جرم کر رہا ہے۔

حالیہ مہینوں میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے کئی دور ہوئے، تاہم یہ مذاکرات خوں ریزی کو ختم کرنے یا عارضی وقفے حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کیوں کہ حماس اب جنگ کا مستقل خاتمہ چاہتی ہے اور یہ یقین دہانی چاہتی ہے کہ اسرائیل تقریباً 15 لاکھ فلسطینیوں کی پناہ گاہ رفح پر حملہ نہیں کرے گا، جب کہ اسرائیل نے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں لڑائی میں صرف 40 دن کے وقفے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ چاہے کوئی بھی معاہدہ طے ہو، وہ رفح پر حملہ ضرور کرے گا۔

عبیر النمروتی

غزہ کی رہائشی خاتون 39 سالہ عبیر النمروتی دن رات اپنے فون سے چمٹی رہتی ہیں، اس امید پر کہ خبروں کے بلیٹن میں ’جنگ بندی‘ کا لفظ سن سکیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ریڈیو سنتے سنتے سو جاتی ہیں اور ان کے سرہانے ریڈیو چلتا رہتا ہے۔

عبیر النمروتی نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ اسی طرح ریڈیو سنتی رہیں گی یہاں تک کہ ’جنگ بندی‘ کا لفظ نہ سن لیں۔ عبیر کے 8 بچے ہیں، خان یونس کے قصبے القارا میں ان کی رہائش تھی تاہم اسرائیلی بمباری میں ان کا گھر تباہ ہو گیا ہے، حملے میں وہ اور ان کے شوہر کو چوٹیں بھی آئی تھیں، اور انھیں ہفتوں تک علاج سے گزرنا پڑا۔

اب وہ وسطی غزہ کے دیر البلح میں جس خیمے میں رہتی ہیں، وہاں سے وہ قریبی الاقصیٰ شہدا اسپتال جاتی ہیں تاکہ وہ دوائیں حاصل کر سکیں جو ان کے شوہر کو اب بھی درکار ہیں۔

النمروتی اس بار جنگ بندی سے متعلق پر امید ہیں، انھوں نے کہا جب بھی مذاکرات میں تھوڑی سی حرکت ہوتی ہے، نیتن یاہو اس میں رکاوٹیں ڈال دیتے ہیں، لیکن اس بار میں ماضی سے زیادہ پر امید ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اگر چہ واپس اپنے شہر جانے پر ان کے سر چھپانے کی جگہ نہی ہوگی لیکن ’’ہم اس زمین پر ہوں گے جو ہماری ہے، میں وہاں واپس جا کر خیمہ لگا لوں گی۔‘‘

وائل النباہین

چار بچوں کے والد 48 سالہ وائل النباہین اپنے اہل خانہ کے ساتھ بریج سے دیر البلح آئے اور ایک قدرے غیر معمولی خیمہ لگایا، ان کے خاندان کے پاس خبریں دیکھنے کے لیے ایک ٹیلی وژن اور یہاں تک کہ ایک واشنگ مشین بھی ہے۔ انھوں نے کہا ’’میں چاہتا تھا کہ میرا خاندان قدرے آرام دہ حالت میں ہو اور شدید تباہی میں نہ جیے، ہم ہر وقت خبریں دیکھتے رہتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘

تاہم وائل کو اس بات پر شکوک و شبہات ہیں کہ جلد کوئی جنگ بندی معاہدہ عمل میں آ سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ جنگ بندی کی بات پہلے بھی ہوتی رہی ہے لیکن اب تک ایسا نہیں ہو سکا ہے، تاہم اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اگرچہ ہمارا گھر جل کر ختم ہو چکا ہے، ہم بریج واپس جانے کے لیے بے تاب ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں