اتوار, مئی 19, 2024
اشتہار

شمیم حنفی: ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام، ایک بہترین استاد

اشتہار

حیرت انگیز

اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد، ڈرامہ نگار، شاعر اور مترجم پروفیسر شمیم حنفی چھے مئی 2021 کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ نئی دہلی میں مقیم تھے۔ آج شمیم حنفی کی تیسری برسی ہے۔

شمیم حنفی کو ان کے وطن بھارت ہی نہیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی بڑی قدر و منزلت حاصل رہی اور ان کی ادبی فکر اور تخلیقات کو ہمیشہ سراہا گیا۔

بحیثیت ادبی ناقد مشرقی شعریات پر ان کی نگاہ بہت گہری تھی۔ خصوصیت کے ساتھ شاعر مشرق علّامہ اقبالؔ کے فکری مباحث کا مطالعہ انھوں نے بہت باریک بینی سے کیا تھا۔ وہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے معترف تھے۔ ان کی کتاب ’اقبال اور عصرِ حاضر کا خزانہ‘ بھی ان کی یادگار ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی اردو تنقید کے ساتھ ساتھ شاعری اور فنونِ لطیفہ سے بھی غیر معمولی وابستگی رکھتے تھے۔ شمیم حنفی کی کتابوں میں جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، نئی شعری روایت، تاریخ تہذیب اور تخلیقی تجزیہ، اردو ثقافت اور تقسیم کی روایت، خیال کی مسافت اور قاری سے مکالمہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔

- Advertisement -

وہ بھارت میں‌ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں استاد رہے اور پروفیسر ایمریٹس مقرر ہوئے۔ پروفیسر صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز اینڈ لینگویجز کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ پروفیسر شمیم حنفی فروغِ اردو کے اہم ادارے ’ریختہ‘ اور ’جشنِ ادب‘ کے سرپرست بھی تھے۔ وہ 2010 سے غالب اکیڈمی، نئی دہلی کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔

شمیم حنفی 17 مئی 1938 کو اتر پردیش کے علاقہ سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1967 میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے، 1972 میں پی ایچ ڈی اور 1976 میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈی لٹ کیا تھا۔

وہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی انگریزی کتاب ’انڈیا ونز فریڈم‘ کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ان کی دیگر کتابوں میں منٹو: حقیقت سے افسانے تک‘، ’غالب کی تخلیقی حسیت‘، ’آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ‘ اور ’غزل کا نیا منظر نامہ‘ شامل ہیں۔انہوں نے بچوں کے لیے بھی کتابیں لکھیں اور متعدد کتب کے ترجمے بھی کیے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں