تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

آدم خور شیرنی کرنٹ کی باڑ میں‌ پھنس کر ہلاک

مہاراشٹر: چار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والی آدم خور شیرنی بجلی کے تاروں کی باڑ میں پھنس کر ہلاک ہوگئی۔

تفصیلات کے مطابق دو ماہ قبل جولائی میں بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے دیہی علاقے میں انسانوں کی بستی پر آدم خور شیرنی نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے تھے۔

محکمہ جنگلات نے شیرنی کو جولائی میں پکڑ لیا تھا مگر اُس کی نگرانی کے لیے گلے میں ایک پٹا ڈالا گیا، شیرنی نے اُس کے بعد بھی گاؤں براہم پوری میں حملہ کر کے دو افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔

مہاراشٹر کے مقامی افراد کی جانب سے ان واقعات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا جس پر جج نے آدم خور شیرنی کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا، جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے عدالتی حکم کو چلینج کررکھا تھا۔

چودہ اکتوبر کو مقدمے کی سماعت کے دوران محکمہ جنگلات کے حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آدم خور شیرنی کو پکڑنے کے لیے کرنٹ کے باڑ نصب کیے گئے تھے جنہیں پھلانگنے کے دوران شیرنی پھنسی اور کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئی۔

رکیش رانجھن نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آدمی خور شیرنی ہفتے کے روز 2 بج کر 30 منٹ پر بجلی کے تاروں میں مردہ پائی گئی‘۔ عدالت نے منتظمین کا مؤقف سننے کے بعد مقدمہ بند کردیا۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کوشاں تنظیموں نے شیرنی کی موت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا، کارکنان کا کہنا ہے کہ شیرنی کرنٹ لگنے سے خود نہیں مری بلکہ اسے مارا گیا ہے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -