تازہ ترین

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے!

ہم پاکستان کے ممتاز اور نام ور آرٹسٹ گل جی کے گیارہ سال دیوار بیچ پڑوسی رہ چکے ہیں۔ انہیں بہت قریب سے پینٹ کرتے دیکھا ہے۔ وہ صرف رات کو اور وہ بھی بارہ بجے کے بعد پینٹ کرتے ہیں۔ کافی عرصے تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ شاید انہیں رات میں بہتر دکھائی دیتا ہے لیکن جب سے خود ہم نے السر کی تکلیف کے سبب رات کو لکھنا پڑھنا شروع کیا ہم سائے کے بارے میں بدگمانی سے کام لینا چھوڑ دیا۔

کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے

انہیں بھی گھوڑوں سے بے انتہا شغف ہے۔ ان کی تصویریں بنا کے لاکھوں کماتے ہیں۔ سنا ہے ایک دفعہ کسی نے (ہم نے نہیں) مذاق میں کہہ دیا کہ جتنے کی آپ ایک گھوڑے کی تصویر بیچتے ہیں اس میں تو تین زندہ گھوڑے باآسانی آسکتے ہیں۔ اتنا تو ہم نے بھی دیکھا کہ اس کے بعد وہ کینوس پر کم از کم تین گھوڑے بنانے لگے۔

یہ بھی دیکھا کہ جتنے پیار، تفصیل وار موشماری اور انسپریشن سے وہ گھوڑے کی دُم بناتے ہیں اس کا سو واں حصہ بھی گھوڑے اور سوار پر صرف نہیں کرتے۔ صرف گھوڑے ہی کی نہیں سوار کی بھی ساری پرسنالٹی کھچ کر دُم میں آجاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے ایک ایک بال پر مالکانہ شفقت سے ہاتھ پھیر کے دُم بنائی ہے۔

چناں چہ ہر دُم منفرد، البیلی اور انمول ہوتی ہے۔ دل کی بات پوچھیے تو وہ فقط دُم ہی بنانا چاہتے ہیں۔ باقی ماندہ گھوڑا انہیں فقط دُم کو اٹکانے کے لیے طوعاً وکرہاً بنانا پڑتا ہے۔ کبھی کسی وی آئی پی خاتون کی پورٹریٹ خاص توجہ سے بہت ہی خوب صورت بنانی مقصود ہوتی ہے تو اس کے بالوں کی پونی ٹیل بطور خاص ایسی بناتے تھے کہ کوئی گھوڑا دیکھ لے تو بے قرار ہوجائے۔

بلبل فقط آواز ہے طاﺅس فقط دُم

یوں بنانے کو تو انہوں نے البیلے اونٹ بھی بکثرت بنائے ہیں اور الٹے بانس بریلی بھیجے ہیں۔ یعنی درجنوں کے حساب سے عرب ممالک کو روغنی اونٹ ایکسپورٹ کیے ہیں۔ ان کے بعض اونٹ تو اتنے منہگے ہیں کہ صرف بینک، شیوخ، غیر ملکی سفارت کار اور مقامی اسمگلر ہی خرید سکتے ہیں۔

یونائیٹڈ بینک نے ان سے جو نایاب اونٹ خریدے وہ اتنے بڑے نکلے کہ ان کے ٹانگنے کے لیے ہال کے بیچوں بیچ ایک دیوار علیحدہ سے بنوانی پڑی لیکن انہیں دیکھ کر شیوخ اتنے خوش ہوئے کہ بعض نے اصل یعنی بالکل انہی جیسے اونٹوں کی فرمائش کردی۔ اب بینک اس مخمصے میں پڑگیا کہ:

ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جسے

جب ہم بینک سے متعلق و منسلک ہوئے تو ایک دن ہمت کرکے گل جی سے کہا کہ حضور اگر آپ آیندہ ایسے اونٹ بنائیں جو اس عالمِ آب و گل میں با آسانی دست یاب ہوجایا کریں تو بینک کو شیوخ کی فرمائش پوری کرنے میں آسانی رہے گی۔ نوکری کا سوال ہے۔

بہرکیف گل جی کے اونٹ میں وہ گھوڑے والی بات پیدا نہ ہوسکی اور ہوتی بھی کیسے، کہاں گھوڑے کی تابہ زانو گھنیری چنور شاہی دُم، کہاں اونٹ کی پونچھڑی!

دُم نہیں دُم کا ٹوٹا کہیے۔ مرزا کہتے ہیں کہ اس سے تو ڈھنگ سے شُتر پوشی بھی نہیں ہوسکتی۔ ہر جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے۔

(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”آبِ گم“ سے اقتباس)

Comments

- Advertisement -