تازہ ترین

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

قصہ ایک کامیاب ایجاد کا ۔ اور اس کے ناکام موجد کا

انسانی زندگیوں میں تبدیلی لانے والی سائنسی ایجادات اپنے موجد کو رہتی دنیا تک امر کر جاتی ہیں اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد انہیں اپنا آئیڈیل بنائے رکھتے ہیں، تاہم کچھ موجد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ایجاد تو نہایت دھماکہ خیز ہوتی ہے لیکن انہیں وہ پہچان نہیں مل پاتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

ایسا ہی ایک موجد ڈگلس اینگلبرٹ بھی تھا، بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ ہمارے آج کل کے کمپیوٹرز کا اہم حصہ، یعنی ماؤس کا موجد تھا۔

ڈگلس اینگلبرٹ سنہ 1960 میں امریکا کے اسٹینڈ فورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ منسلک تھا، اس وقت تک کمپیوٹر کو جوائے اسٹک اور کی بورڈ کے ذریعے استعمال کیا جاتا تھا، تاہم ڈگلس کو یہ آلات ناپسند تھے۔

اس نے سوچ بچار کے بعد ایک ایسی ڈیوائس ایجاد کی جو اسکرین پر کرسر کے ذریعے کام کرتی تھی، اس کا نام دا بگ رکھا گیا۔ یہ کمپیوٹر ماؤس کی ابتدائی شکل تھی۔

اس ایجاد پرمثبت ردعمل سامنے آتا رہا، سنہ 1966 میں امریکی خلائی ادارے ناسا نے اسے استعمال کیا تو انہوں نے اسے ایک بہترین ٹیکنالوجی قرار دیا۔

2 سال بعد ڈگلس نے اپنے ایک ساتھی بل انگلش کے ساتھ اسے سان فرانسسکو کے سائنسی میلے میں 1 ہزار افراد کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت اس کے ڈیمو کو تمام ڈیموز کی ماں قرار دیا گیا۔

یہ طے تھا کہ آنے والے وقت میں دا بگ ایک اہم شے بننے والا تھا۔

5 سال بعد ڈگلس اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر چھوڑ کر ایک امریکی ڈیجیٹل کمپنی زیروکس کے ساتھ منسلک ہوگیا۔

سنہ 1979 میں ایک شخص نے زیروکس کو اپنی کمپنی میں شیئرز لگانے کی پیشکش کی اور بدلے میں زیروکس کے ریسرچ سینٹر تک رسائی چاہی، یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اسٹیو جابز تھا اور اس کی کمپنی ایپل تھی۔

زیروکس کے ریسرچ سینٹر میں جابز کو ماؤس کا آئیڈیا بے حد پسند آیا اور اس کے وژن نے لمحے میں بھانپ لیا کہ یہ آنے والے وقتوں کی اہم ایجاد ثابت ہوسکتی ہے۔

جابز نے اپنی کمپنی کے انجینیئرز کو تمام کام روک دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس ڈیوائس کو نئے سرے سے بنا کر، اسے اپ گریڈ کر کے، ایپل کی پروڈکٹ کی حیثیت سے ری لانچ کیا جائے۔

اس وقت تک اس پروڈکٹ (ماؤس) کا پیٹنٹ یعنی جملہ حقوق اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر کے پاس تھے، اسٹیو جابز اسے اپنی کمپنی کی پروڈکٹ کی حیثیت سے لانچ کرنے جارہا تھا اور اس کا اصل موجد یعنی ڈگلس اینگلبرٹ دم سادھے یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔

ایپل کا ری لانچ کیا ہوا ماؤس

یہ یقینی تھا کہ تہلکہ مچا دینے والی اس ایجاد کا مستقبل میں ڈگلس کو کوئی منافع نہیں ملنے والا تھا۔

ڈگلس غریب کا آئیڈیا تو بے حد شاندار تھا، تاہم وہ اس آئیڈیے کو وہ وسعت پرواز نہیں دے سکا جو اسے ملنی چاہیئے تھی۔ یوں کہیئے کہ یہ بڑی ایجاد اس کے چھوٹے خوابوں سے کہیں آگے کی چیز تھی۔

اسے نصیب کا ہیر پھیر کہیئے یا وژن کی محرومی، ڈگلس اپنی ایجاد کی اہمیت کا ادراک نہیں کرسکا، اور بلند حوصلہ، پرجوش اور آنے والے وقتوں کی بصارت رکھنے والا وژنری اسٹیو جابز اس ایجاد کو اپنے نام کر گیا۔

Comments

- Advertisement -