تازہ ترین

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

معروف گلوکار اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

4 اگست 1999ء کو پاکستان کے نام وَر گلوکار اخلاق احمد نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ اخلاق احمد کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے اور آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

اخلاق احمد 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسٹیج پروگراموں میں شوقیہ گلوکاری کرنے لگے۔ 1971ء میں انھوں نے کراچی میں بننے والی فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروایا تھا اور یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن ان کے ذریعے وہ مقبولیت انھیں نہیں ملی جو بعد میں ان کے حصّے میں آئی۔

1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں اخلاق احمد کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے‘‘ ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ اخلاق احمد کے فلمی سفر کا مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ اس گیت پر انھیں خصوصی نگار ایوارڈ بھی عطا ہوا۔

اسی عرصے میں اخلاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں گلوکاری کا آغاز کیا اور ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ فلم نگری میں انھوں نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب ترین فلموں کے لیے گیت گائے جو بہت پسند کیے گئے۔ اخلاق احمد کا شمار پاکستان میں مقبولیت کے اعتبار سے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں ہوتا ہے۔

خلاق احمد نے آٹھ نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ 1985ء میں انھیں خون کا سرطان تشخیص ہوا تھا اور وفات کے وقت علاج کی غرض سے لندن میں مقیم تھے۔ انھیں کراچی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -