اشتہار

ژاک دریدا: وہ فلسفی جس کے افکار و نظریات نے علم و فنون پر گہرے اثرات مرتب کیے

اشتہار

حیرت انگیز

فرانس کے سب سے معروف فلسفی اور ردِ ساختیات (ڈی کنسٹرکشن) کے بانی ژاک دریدا 2004ء میں آج ہی کے دن سرطان کے مرض کے سبب زندگی کی جنگ ہار گئے تھے۔ وہ 74 سال جیے اور دنیا بھر میں اپنے فلسفے اور نظریات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔

ان کے نظریات کی ہمہ گیری نے علم و ادب کے تمام شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ تاہم ان پر تنقید بھی کی گئی اور ان کے خیالات کو لایعنی اور بے معنیٰ بھی کہا گیا۔ اس کے باوجود دنیا انھیں علم و ادب، تنقید اور لسانیات کے ایک یگانہ روزگار اور دانش ور کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔

ان کے فلسفے نے ادب، فن، اخلاقیات اور روایتی مابعدالطبیعیات کو متاثر کیا۔

- Advertisement -

ژاک دریدا الجزائر کے ایک یہودی خاندان میں 1930ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے فلسفے پر توریت کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ وہ 1952ء میں فرانس منتقل ہوگئے اور ہاورڈ اور سوربون میں تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کے ساتھ باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ انھیں جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر، ایڈمنڈ ہسرل اور فرائڈ کے خیالات کی توسیع قرار دیا جاتا ہے۔

انھیں کیمبرج نے 1992ء میں اعزازی ڈگری دی تھی۔ دریدا فرانس میں تارکینِ وطن کے حقوق اور چیکو سلواکیہ میں آزادی کی حمایت میں مہم چلاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے مخالف رہے اور نیلسن منڈیلا کی حمایت میں بھی مہم چلائی۔

2003ء میں دریدا کے نام ہی سے ان کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا دورانیہ 84 منٹ تھا۔ اس فلم کے دوران دریدا کی کتابوں سے بھری ہوئی دیواروں کے قریب سے گزرتے ہوئے کوفمین نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے یہ سب کتابیں پڑھی ہیں؟

دریدا نے فوراً جواب دیا: نہیں، صرف ان میں سے چار پڑھی ہیں، لیکن میں نے انھیں انتہائی انتہائی غور سے پڑھا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا بلکہ اپنے انقلابی تصورات سے فکر و نظر کو مالا مال کیا۔ ان کے متنوع افکار کے اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ژاک دریدا کی حیات و خدمات اور فلسفیانہ تصوّرات پر پانچ سو سے زائد مفصل اور جامع تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ ریسرچ اسکالرز نے چودہ ہزار سے زائد مقالات لکھ کر ان کے اسلوب کی تفہیم کی سعی کی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں