جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار کی فوجی حکومت نے سابق رکن پارلیمنٹ سمیت 4 افراد کو سزائے موت دے دی ہے۔
میانمار کے سرکاری میڈیا کے مطابق جمہوریت پسند رہنماؤں کو ’دہشت گردانہ سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے کے الزام میں سزائے موت دی گئی ہے، چاروں افراد پر فوج سے لڑنے والی ملیشیا کی مدد کا الزام تھا۔
رپورٹ کے مطابق ان افراد کیخلاف رواں برس جنوری میں ٹرائل کا آغاز کیا گیا تھا۔
سزائے موت پانے والے افراد میں جمہوریت کے لیے کام کرنے والے کیو من یو، سابق قانون ساز اور ہپ ہاپ آرٹسٹ فائو زیا تھاؤ، ہلا میو آنگ اور آنگ تھورا زاؤ تھے شامل ہیں۔
53 سالہ کیو من یو اور 41 سالہ فائو زیا تھاؤ فوج کی جانب سے اقتدار سے نکالے جانے والی رہنما آنگ سان سوچی کے اتحادی تھے۔ دونوں کی اپیلیں جون میں مسترد کی گئی تھیں۔
سزائے موت دیے جانے پر اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
میانمار میں 1988 کے بعد پہلی مرتبہ کسی بھی شخص کو سزائے موت دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ میانمار کی فوج نے گزشتہ برس فروری میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا، جس کے خلاف ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ فوج نے جمہوریت کے حامی مظاہرین، کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف خونی کریک ڈاؤن شروع کا آغاز کر دیا تھا۔