تازہ ترین

ادبی رسائل، ان کے ایڈیٹر اور قلم کاروں کے نام

پچھلے سات آٹھ سال سے شائع ہونے والے رسالوں کا ذکر کرنے سے پہلے ہم پچھلے پچیس سال کے بعد ایڈیٹروں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔

اس زمانے میں جن لوگوں نے ایڈیٹری کی دنیا میں ہلچل پیدا کی ان میں مولانا صلاح الدین احمد، مولانا حامد علی خاں اور شاہد احمد دہلوی کے نام بہت ممتاز ہیں۔ ان لوگوں نے اردو کے ادیبوں کی ساری نئی نسل دی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ حکیم یوسف حسن صاحب (فی الحقیقت ان کے دوستوں تاثیر۔ مجید ملک وغیرہ وغیرہ) اور منصور احمد مرحوم کے نام آتے ہیں۔ میرا جی بھی اس میدان میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ بعد کے ایڈیٹروں میں ادب لطیف کے مرزا ادیب کے علاوہ احمد ندیم قاسمی کا ذکر ضروری ہے جو ادب لطیف کے کئی برس تک ایڈیٹر رہے، اور بعد میں سویرا اور نقوش کے موسس مدیر بنے جو اس وقت بھی اردو کے چوٹی کے رسالے ہیں۔

قطع کلام ہوتا ہے لیکن بات واضح کرنی ضروری ہے۔ ادیبوں کے ناموں کے لکھنے کے اوضاع سے لے کر مضامین کی ترتیب تک میں بہت تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کبھی نام مضمون کے نیچے لکھاجاتا تھا اب اوپر لکھا جانے لگا۔ پھر سرخی کے نیچے آگیا۔ کبھی داہنے کونے میں کبھی بائیں ہاتھ۔ عالمگیر تو سرخی کے ساتھ بیل بوٹے بھی بناتا تھا اور توضیحاً ایک اخلاقی نظم ایک علمی مقالہ وغیرہ کی ذیلی سرخی دیتا تھا تاکہ کہیں کچھ اور نہ سمجھ لیا جائے۔ ادیب بھی اپنے نام کے ساتھ القاب اور ڈگریاں دھوم دھام سے لکھتے ہیں۔ بی۔ اے اور ایم ۔اے تو نام کے ساتھ لکھنے کا رواج ابھی حال تک رہا اور ہمایوں کو اس کا خاص لحاظ رہتا تھا۔ لیکن لوگ اپنے عہدے اور پیشے تک لکھ دیتے تھے۔ مثلاً زاہد حسن بی۔ اے نائب تحصیلدار وغیرہ۔ پھر ایک زمانے میں قلمی ناموں کی اور پھر خوبصورت مرکب ناموں کی ریل پیل ہوئی، ترتیب میں نظموں، افسانوں اور مقالوں کے فنکشن الگ کرنا اب ایک عام رواج ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس کی ابتدا 1946ء میں سویرا نے کی۔ سویرا کا ہمارے ادب میں اب بھی بہت اونچا مقام ہے لیکن اس کی آغاز اشاعت کے وقت تو معیار اور حسنِ ترتیب میں اس کا کوئی رقیب نہ تھا۔ پھر عسکری اور منٹو نے اردو ادب نکالا جو سیٹھ کی یہی کی طرح کھلتا تھا لیکن خدا جانے کیوں نہ چلا، اس کی دیکھا دیکھی اسی سائز پر جاوید نکلا۔ ریاض قادر اور ناصر کاظمی نے اوراقِ نو کی صورت میں ایک صوری عیاشی کی۔ پرچہ بہت نفیس نکالا لیکن دیکھنے والوں نے شروع ہی میں اعلان کردیا تھا کہ صاحبزادے جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔ میرا جی نے بمبئی سے خیال نکالا تھا جس پر میرا جیت کی گہری چھاپ تھی۔ بعد میں اختر الایمان بھی ادارت میں شریک ہوئے لیکن اس خیال کو میرا جی سے بھی پہلے موت آگئی۔ لاہور سے انتظار حسین نے اسی نام سے پرچہ نکالا اور اس کی اٹھان بڑی زبردست تھی لیکن اب اس سے تین شمارے اور ایک لطیفہ یادگار ہے اور بس۔ انتظار نے غالباً نقوش والوں کو جلانے کے لیے یہ فقرہ اشتہار میں لکھ دیا تھا کہ خیال ایک ایسا پرچہ ہے جس کا ایڈیٹر بھی ہوگا۔ اور واقعی ادارت کے سلیقے کی وجہ سے ان کی بات ماننی پڑی لیکن مالک غالباً اس کمائی سے لاکھوں میں کھیلنا چاہتا تھا۔ پرچہ بند ہوا اور ایک دوست نے کہا کہ خیال بند ہونے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس پرچے کا ایڈیٹر کے علاوہ ایک مالک بھی تھا۔

(شاعر و ادیب ابنِ انشاء کے ایک مضمون سے اقتباس جو مشہور ادبی رسالے "ساقی” میں 1955ء” میں شایع ہوا تھا)

Comments

- Advertisement -