اشتہار

احمد فرازؔ: اپنے عہد کا ایک مقبول شاعر

اشتہار

حیرت انگیز

احمد فراز کی رومانوی شاعری ہی نہیں، نوجوانوں‌ میں‌ ان کی انقلابی اور مزاحمتی شاعری بھی بہت مقبول تھی، فراز کے کلام میں جذبات کی جو شدت پائی جاتی ہے، اس میں تہذیبی رچاؤ نمایاں‌ ہے۔ آج اس شاعرِ بے مثل کا یومِ وفات ہے۔

احمد فراز کو کئی ادبی اعزازات سے نوازا گیا اور ان کی مقبولیت سرحد پار بھی ہر اس جگہ تھی جہاں‌ اردو سمجھنے والے بستے ہیں۔ 25 اگست 2008ء کو اردو زبان کے اس مقبول شاعر نے اپنی آنکھیں‌ ہمیشہ کے لیے موند لی تھیں۔

شاعر اور سماجی کارکن حارث خلیق کے مطابق میر سے لے کر غالب اور اس کے بعد فیض، راشد اور جوش ملیح آبادی، ان سب کا فراز صاحب کے ہاں عکس نظر آتا ہے۔ ’وہ روایت سے جڑے شاعر تھے۔‘ حارث خلیق کے مطابق مزاحمتی شاعری کی طرف ان کا رجحان پاکستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے بڑھا اور وہ ایک رومانوی شاعر سے انقلابی شاعر بنے۔ ’اردو شاعری اور ترقی پسند تحریک میں رومان اور انقلاب کا امتزاج ہوا اور لوگوں نے انقلاب کو اپنے محبوب کی طرح دیکھنا شروع کیا۔ میرے خیال میں فراز بھی اسی روایت کے شاعر تھے۔‘

- Advertisement -

معروف صحافی اور ادیب انور سِن رائے کو انٹرویو دیتے ہوئے فراز نے بتایا تھا کہ پہلی مرتبہ انھوں نے کیا شعر لکھا تھا، میں نویں سے دسویں میں تھا اور میرے بڑے بھائی محمود دسویں سے کالج میں داخل ہوئے تھے تو والد صاحب ہمارے لیے کچھ کپڑے لائے تھے۔ اس کے لیے تو سوٹ لائے اور میرے لیے کشمیرے کا پیس، کوٹ کے لیے لے آئے، تو وہ مجھے بالکل کمبل سا لگا۔ چیک تھا، آج کل تو بہت فیشن ہے لیکن اس وقت وہ مجھے کمبل سا لگا اور میں نے ایک شعر لکھا جو یہ تھا:

سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

تو بعد میں یہ میرا بنیادی شعر اس اعتبار سے بھی ہوا کہ کلاس کا جو فرق تھا وہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا اور جب ہم فیملی سے ہٹ کر دنیا کے اور مسائل میں آئے تو پتہ چلا کہ بڑا کنٹراڈکشن (تضاد) ہے تو اسی طرح شاعری بھی میں نے شروع کی، دو طرح کی۔ ایک تو اسی زمانے میں وہ بھی ہوا جسے عشق کہتے ہیں اور ایک یہ بلا بھی تھی۔ اسی انٹرویو میں‌ وہ اپنی زندگی اور اپنے تخلیقی سفر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ‘اس طرح میری زندگی دو چیزوں کے گرد گھومتی رہی۔ پھر ہم سوشلزم کی تحریکوں میں رہے، کمیونزم اور کیپیٹلزم پڑھا۔ کالج میں جب تھے تو جب سے ہی پڑھنا شروع کیا۔ پھر کمیونسٹ لیڈر تھے رائٹر بھی تھے نیاز احمد صاحب، تب تک ہمیں کچھ سمجھ نہیں تھی کہ کمیونسسٹ کیا ہوتے ہیں۔ ہم شام کو نیاز حیدر کے پاس جا کر بیٹھتے تھے۔ وہ شام کو اخبار بیچتے تھے اور بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ تو ہمیں لگا کہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہوتے ہیں۔ خیر پھر وہ انڈیا چلے گئے۔ اس کے بعد ہم ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن میں کوئی ڈسپلنڈ (منظم) آدمی نہیں تھا، جلسہ ہوتا تھا تو میں اس وقت پہنچتا تھا جب جلسہ ختم ہونے والا ہوتا حالانکہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ فارغ بخاری اس وقت سیکرٹری تھے اور رضا ہمدانی وغیرہ تھے۔ اور مجھے اس لیے جوائنٹ سیکرٹری بنایا گیا تھا کہ نوجوان ہے تو انرجیٹک ہو گا۔ اس کے بعد ریڈیو ملازمت کر لی اس میں بھی سیکھا بہت کچھ۔ میری پہلی اپائنٹمنٹ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی، کراچی میں۔

احمد فرازؔ 1931ء میں کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ نام سید احمد شاہ تھا اور فرازؔ تخلص کیا۔ انھوں نے ایڈورڈز کالج سے تعلیم حاصل کی، اردو اور فارسی میں ایم۔ اے۔ کیا۔ دورانِ تعلیم انھوں نے پاکستان ریڈیو کے لیے فیچرز لکھے اور شاعری کا سفر بھی شروع ہوچکا تھا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام’’تنہا تنہا‘‘ اُس وقت شائع ہوا جب وہ بی۔اے۔ کررہے تھے۔ تعلیم مکمل ہوتے ہی یونیورسٹی میں لیکچرر کی ملازمت کرنے کا موقع مل گیا اور تب ان کا دوسرا شعری مجموعہ’’دردِ آشوب‘‘ شائع ہوا۔ اس ملازمت کے بعد ’’پاکستان نیشنل سینٹر‘‘ پشاور، میں ڈائریکٹر کے منصب پر فائز ہوئے۔ اور پھر ’’اکادمی ادبیات پاکستان‘‘ کے پہلے منتظمِ اعلیٰ بنے اور بعد میں متعدد فن و ثقافت کی تنظیموں اور اداروں میں‌ عہدوں‌ پر فائز رہے۔

احمد فراز ؔ کو 1966 میں پاکستان رائٹرز گلڈذ کی جانب سے اعزاز دیا گیا اور پھر ’’آدم جی ادبی ایوارڈ‘‘ اپنے دوسرے شعری مجموعے پر حاصل کیا۔ بھارت میں انھیں 1988 میں ’’فراق گورکھپوری ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں‌ ’’ ستارہ امتیاز’’ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا تھا جب کہ 2010 میں بعد از مرگ ان کے لیے ’’ہلال پاکستان‘‘ کا اعلان کیا۔

احمد فراز نے عوام اور جمہوریت کے حق میں‌ نہ صرف قلم کے ذریعے آواز اٹھائی بلکہ دورِ‌ آمریت میں‌ جلاوطنی بھی سہنا پڑی۔ وہ ملازمتوں سے بھی فارغ کیے گئے اور مشکل وقت بھی دیکھا۔ فراز کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور ان کا کلام نام ور گلوکاروں‌ نے گایا۔ مہدی حسن کی آواز میں‌ رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ… اور اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں‌ میں‌ ملیں….ہی نہیں ان کی غزلیں بھی پاکستان اور بھارت کے مشہور گلوکاروں‌ کی آواز میں مقبول ہوئیں۔ پاک و ہند مشاعروں کے ساتھ دنیا بھر میں‌ جہاں‌ بھی اردو کی محفل سجی اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا فراز کو مدعو کیا جاتا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں