تازہ ترین

انگکور واٹ: کمبوڈیا کی قدیم مذہبی یادگار اور سیاحتی مقام

انگکور واٹ، قدیم اور تاریخی عمارت کے وہ کھنڈرات ہیں جو کمبوڈیا اور اس خطّے کی میں‌ صدیوں‌ قبل ایک سلطنت اور اس کے زیرِ اثر مذاہب کی کہانی سناتے ہیں۔

اس خطّے پر ہندوستانی تہذیب کے ابتدائی اثرات غالب نظر آتے ہیں۔ یہ خطّہ پہلی سے چھٹی صدی کے دوران ایک ابتدائی ہندو ثقافت فنان کے طور پر تاریخ میں جانا جاتا ہے جو بعد میں‌ جے ورمن دوم کے زمانے میں کھمر یا خمیر سلطنت کہا گیا۔ یہ سلطنت ہندو عقائد کے تحت ترقی کی منازل طے کرتی رہی اور پھر گیارھویں صدی میں بدھ مت متعارف ہوا جو رفتہ رفتہ انگکور واٹ کے قدیم اور طرزِ تعمیر کے شاہکار معبد پر غالب آگیا، لیکن یہ ہندو بدھ عبادت کے طور پر ہی مشہور رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انگکور واٹ ہندو مندر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا اور اس وقت خطّے کا حکم راں سوریا ورمن دوم کا مذہب یہی تھا۔ پھر 12 ویں صدی کے اواخر تک یہ بدھ مت کا مقام سمجھا گیا۔

  

انگکور واٹ ہر سال لاکھوں زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہاں کا پیچیدہ اور وسیع آبی نظام ایک سلطنت کے عروج اور زوال کی وجہ رہا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق یہ کمبوڈیا کی بڑی مذہبی یادگار کے آثار بھی ہیں۔ ہر سال سیاح اور مذہبی عقیدت مند بھی یہاں زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ اور اس مقدس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر اس پانی سے ‘برکت’ حاصل کرتے ہیں جو سنہ 802 عیسوی سے سلطنت کے خاتمے تک بادشاہوں کی تاجپوشی کے لیے استعمال ہوتا رہا۔

کمبوڈیا کی اس سلطنت کا قیام اس وقت عمل میں آيا جب سلطنت کے بانی جے ورمن دوم کو اس مقدس پانی سے غسل دیا گیا اور انھیں دیوتا جیسا راجہ کہا گيا۔ ان کی سلطنت جدید دور کے کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویتنام پر پھیلی ہوئی تھی اور مؤرخین کا خیال ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل انگکور شہر دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ کمبوڈیا کے باشندوں کے لیے آج بھی یہ ایک بہت ہی خاص جگہ ہے، اور اس کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہاں کا کولن پہاڑ اور مندر عقیدت مندوں کی وجہ سے خاص اہمیت اختیار کرجاتا ہے جب وہ یہاں ہر سال ایک خاص موقع پر نذرانے لے کر یہاں آتے ہیں۔

یہ سلطنت پانچ سو صدیوں تک قائم رہی اور کے ماہر انجینیئروں نے یہاں پانی کا ایک وسیع اور پیچیدہ نظام بنایا جو ماہرین کے مطابق شہر کی آبادی، زراعت اور مویشیوں کو سہارا دینے کے لیے مون سون کے موسم میں سال بھر پانی کی فراہمی کو یقینی بناتا تھا۔ اس میں مختلف ادوار میں حکم رانوں نے بہتری کے لیے تعمیر و مرمت کی اور ان میں نہروں، کھائیوں، اور آبی ذخائر کا اضافہ کیا۔

ابتداً انگکور واٹ ایک ہندو مندر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، جو بعد میں بدھ مت کے پیروکاروں کے زیرِ اثر آگیا۔ ماہرین کے مطابق جب انگکور سلطنت زوال پذیر ہوئی تو یہاں آبادی بھی نہ رہی اور یہ بلند و بالا مندر بھی لاوارث ہو گیا اور اس زمانے میں درخت اور ہر طرح کے سبزہ سے ڈھک گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ تک لوگ اس کے بارے میں جاننے کے باوجود یہاں آنے سے گریزاں رہے اور بعد کے برسوں میں جنگل نے اس معبد اور اس کے آبی نظام کو مکمل طور پر گھیر لیا۔ فرانس نے جب کمبوڈیا پر غلبہ حاصل کیا تو یہاں تک اتفاقیہ رسائی ہوئی جس نے دنیا کو ایک تہذیب اور مذہبی عمارت کے کھنڈرات کو دیکھنے کا موقع دیا۔ یہ سنہ 1860 کی بات ہے جب فرانسیسی مہم جو ہینری موہوت اسے دنیا کے سامنے لایا۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے یہاں صفائی کروا کے اس مندر کی بحالی کے علاوہ اس آبی نظام پر تحقیق شروع ہوئی جو اس کا سب سے اہم حصّہ ہے۔

Comments

- Advertisement -