اشتہار

ہڈیاں اتنی نازک کہ ہاتھ ملانے سے ٹوٹ جاتی ہیں؟ باہمت نوجوان کی دکھ بھری کہانی

اشتہار

حیرت انگیز

بھارت میں ایک ایسا نوجوان بھی ہے جو موذی مرض کا شکار ہونے کے بعد اتنا نازک ہوچکا ہے کہ ہاتھ ملانے سے بھی اس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔

صحت اللہ تعالیٰ کی ایک عظمیم نعمت ہے اور جس کے پاس یہ نعمت نہیں ہوتی اس کی زندگی بھی دیگر لوگوں کی طرح آسان نہیں ہوتی۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں دیکھ انسان کو اپنا غم کم محسوس ہوتا ہے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس کے پاس صحت کی نعمت موجود ہے۔

ایسا ہی ایک نوجوان بھارت کے شہر بنگلورو کا رہائشی ہے۔ یہ شیر خواری کی عمر میں ایسی موذی بیماری کا شکار ہوا کہ اس کی زندگی ہی بدل گئی۔ 14 سال کی عمر تک اس کے جسم کی ہڈیاں 50 بار ٹوٹ چکی تھیں اور اب اس کی ہڈیاں اتنی نازک ہوچکی ہیں کہ کوئی ہاتھ بھی ملا لے تو ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ لیکن اس نوجوان نے ہمت نہ ہاری اور معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا۔ آج وہ موٹیویشنل اسپیکر ہے اور مایوس افراد اس کی تقاریر سن کر زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ حاصل کرتے ہیں۔

- Advertisement -

نوجوان جس کو اس کے باہمت زندگی گزارنے پر ہندوستان کا "وہیل چیئر واریر” کہا جاتا ہے۔ صرف ایک موٹیویشنل اسپیکر ہی نہیں بلکہ گرافک ڈیزائنر بھی ہے اور اس نے چند سال قبل ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اس باہمت نوجوان کی موذی مرض سے لڑنے اور جدوجہد کی کہانی اس کی زبانی ہی سنتے ہیں۔

وہیل چیئر پر بیٹھے 32 سالہ نوجوان نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے ایک بھارتی ویب کو بتایا کہ جب میں 3 ماہ کا تھا اسی وقت ڈاکٹرز نے میرے والدین کو بتا دیا تھا کہ مجھے ہڈیوں کی ایسی بیماری ہے جس میں میری ہڈیاں شیشے کی طرح ٹوٹیں گی اور یہ ایک لاعلاج مرض ہے۔

نوجوان نے بتایا کہ یہ سن کر میرے والدین بہت زیادہ پریشان ہو گئے۔ ہم چونکہ جوئنٹ فیملی میں رہتے تھے اسلیے میرا خیال رکھنے کے لیے والدین ان سے الگ ہو گئے، کیونکہ ساتھ رہنے پر سب کہتے تھے کہ میں ان پر بوجھ ہوں، لیکن میرے والدین نے مجھے بوجھ نہیں سمجھا بلکہ میں ان کے لیے خاص رہا۔

اس کا کہنا تھا کہ جب تک میں 6 سال کا نہ ہو گیا مجھے اپنے بارے میں خاص ہونے کا احساس نہ تھا تاہم جب میں اسکول میں اول آیا اور میرے سب سے اچھے دوست نے مجھے مبارکباد دینے کے لیے میرا ہاتھ پکڑا تو وہ ٹوٹ گیا۔ اسی طرح ایک بار جب ڈانس کلاس کے دوران ایک دوست نے انجانے میں مجھے دھکا دیا تو میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد سے میں بس دور سے بیٹھ کر دوسرے بچوں کو دیکھنے لگا۔

میری والدہ موسیقی کی ٹیچر تھیں اور انہوں نے مجھے تربیت دینا شروع کی۔ مجھے یہ سب اچھا لگا تو میں نے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ اس کا صلہ کچھ یوں ملا کہ مجھے مغربی بنگال میں بہترین "چائلڈ گلوکار” کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ لیکن 2 سال بعد ایک روز میں گر گیا اور میری ٹانگیں ٹوٹ گئیں جس کے بعد میں وہیل چیئر تک محدود ہو کر رہ گیا ہوں۔

والدین نے اس موقع پر ہمت نہ ہاری اور مجھے علاج کیلیے آندھرا لے آئے، فریکچر کی وجہ سے میرا جسم اکڑ چکا تھا اور 6 سال تک میں بیڈ پر رہا۔ اس وقت سب کچھ رک گیا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ ایسی زندگی کا کیا فائدہ؟ اس موقع پر والدین نے میرا ہر طرح سے خیال رکھا لیکن میں بہت زیادہ مایوس ہوگیا تھا اور دل پر بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔

نوجوان نے بتایا کہ اس مشکل وقت میں قدرت نے میری مدد کی اور ایک دن میرا دوست آیا جس نے مجھ سے گِرافک ڈیزائننگ سیکھنے کے بارے میں بات کی۔ پہلے میں گھبرایا پھر میں نے ویڈیوز دیکھیں، کتابیں پڑھیں اور اسے سمجھا اس کے بعد میں نے فری لانسنگ شروع کی۔ آہستہ آہستہ چیزیں بہتر ہوتی گئیں۔

اس نے موٹیویشنل اسپیکر بننے کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ اس دوران لوگوں نے مجھے اپنی زندگی کے بارے میں بات کرنے کے لیے فون کرنا شروع کر دیا اور میں ایک موٹیویشنل سپیکر بن گیا۔ یہاں تک کہ مجھے کل وقتی ملازمت بھی مل گئی۔ آج مجھے یہ کام کرتے ہوئے 8 سال ہوگئے ہیں اور اب میں اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن ہوں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں