تازہ ترین

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

سیّد سجّاد علی شاہ: عدالتی تاریخ کے ایک متنازع منصفِ اعظم

ماضی میں عدلیہ کے بعض فیصلوں کے بالخصوص پاکستان میں سیاسی عمل، جمہوریت کے تسلسل اور ملک کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے جن میں نہایت متنازع اور ایسے فیصلے شامل ہیں جن کا خمیازہ قوم کو بھی بھگتنا پڑا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کا نام پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ان کے کچھ فیصلوں کے باعث متنازع رہا ہے۔ آج سجاد علی شاہ کی برسی ہے۔ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ 7 مارچ 2017ء کو انتقال کر گئے تھے۔ ڈیفینس میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد سجاد علی شاہ کی تدفین سپر ہائی وے پر واقع وادیٔ حسین قبرستان میں کی گئی۔

13 ویں چیف جسٹس اور اختلافات
کسی بھی ملک میں ابتری، انتشار اور اداروں کے زوال کی ایک نشانی یہ ہے کہ قوم اپنے حال کو بدتر سمجھتی ہے اور اسے ماضی کی یاد آنے لگتا ہے۔ اس زوال و انحطاط کے اثرات ہر اہم اور بڑے ادارے پر پڑتے ہیں اور ماضی میں پاکستان میں عدلیہ کو اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا رہا ہے۔ اس ضمن میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جس میں جلد بازی میں فیصلہ، پارلیمان کے منظور کردہ قوانین کو کالعدم قرار دینا اور اکثر سپریم کورٹ کے ججوں میں عدم اتفاق اور اس کے نتیجے میں واضح تقسیم بھی نظر آتی ہے، تاہم یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے 13 ویں چیف جسٹس تھے۔ انھوں نے عدالتی تاریخ میں اپنا نام ایسے جج کے طور پر لکھوایا جنھیں انہی کے ساتھی ججوں نے گھر بھیج دیا تھا۔ یہ دس رکنی بینچ تھا جس نے ایک تنازع کے بعد سجاد علی شاہ کے بطور چیف جسٹس تقرری کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا تھا۔

پینشن اور مراعات سے محرومی
ساتھی ججوں کے فیصلے کے بعد سیّد سجاد علی شاہ کا دور تمام ہوا اور انھیں اپنی پینشن اور مراعات سے بھی محروم ہونا پڑا۔ سجاد علی شاہ عدالت چلے گئے اور یہ 2009ء کی بات ہے۔ اس وقت چیف جسٹس کے منصب پر افتخار محمد چوہدری موجود تھے جن کی بحالی کی تحریک کو مشرف دور میں دنیا بھر میں شہرت ملی تھی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری ہی نے عدالت سے رجوع کرنے پر حکومت کو حکم دیا تھا کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو پینشن کی ادائیگی کی جائے۔

پیدائش اور تعلیم
سید سجاد علی شاہ کا تعلق صوبۂ سندھ سے تھا۔ وہ کراچی میں پیدا ہوئے تاہم ان کا آبائی شہر نواب شاہ تھا۔ سجاد علی شاہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے جامعۂ کراچی میں داخلہ لیا اور وہاں‌ سے قانون کی ڈگری لے کر نکلے۔ 1989ء میں وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ اس کے تقریباً ایک سال کے بعد سجاد علی شاہ کی ترقی ہوئی اور وہ سپریم کورٹ بھیجے گئے۔

نواز حکومت کی بحالی کی مخالفت اور بے نظیر دور میں تعیناتی پر تنازع
غلام اسحاق خان نے صدرِ مملکت کی حیثیت سے 1993ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کا حکم دیا تھا۔ آٹھویں ترمیم کے تحت اسمبلیاں توڑے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں صدر کے اس فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی اور حکومت کو بحال کر دیا گیا۔ یہ 11 رکنی بینچ تھا جس میں سجاد علی شاہ وہ واحد جج تھے جنھوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کی بحالی کی مخالفت کی تھی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے سجاد علی شاہ کی تعیناتی کی منظوری دی اور اس اس وقت تنازع اٹھا جب یہ الزام لگا کہ دو سینیئر ججوں کی موجودگی میں وزیراعظم نے اپنی مرضی کا چیف جسٹس تعینات کیا۔ تاہم جب صدر پاکستان فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات پر برطرف کیا تو اس وقت چیف جسٹس سجاد علی شاہ اس چھ رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے ان الزامات کو درست قرار دیا اور اس حکومت کی برطرفی کا فیصلہ برقرار رکھا۔

ججوں سے اختلافات اور دیگر اہم واقعات
سنہ 1997ء میں سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے اور سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران لیگی کارکنوں نے دھاوا بول دیا تھا۔ فریقین میں اختلافات کی ایک وجہ چیف جسٹس کی خواہش کے برعکس خصوصی عدالتوں کا قیام بھی تھا۔ دراصل ن لیگ کو دوسری بار بھاری مینڈیٹ ملا اور اقتدار میں‌ آکر حکومت نے کئی دوسرے فیصلوں کے ساتھ ایک فیصلہ انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے قیام کا کیا۔ اس پر سجاد علی شاہ کے ساتھ اختلاف کے باعث بعض سیاسی بیانات سامنے آئے تھے اور سپریم کورٹ پر حملہ بھی اسی دور میں‌ ہوا۔

1997 میں میاں نواز شریف کے دور میں جب پاکستان کے آئین میں 13 ویں ترمیم کے بعد صدرِ مملکت سے قومی اسمبلی کی برطرفی کے اختیارات ختم کیے گئے تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت نے ان اختیارات کو بحال کر دیا۔ یہ دن ملکی تاریخ میں ہنگامہ خیز ثابت ہوا اور اسی روز ایک دوسرے بینچ نے جسٹس سعید الزّمان صدیقی کی سربراہی میں ان اختیارات کو معطل کر دیا۔ اس طرح سجاد علی شاہ کو عدلیہ سے بھی ردعمل اور مخالفت دیکھنا پڑی اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اس وقت بعض ججوں نے سجاد علی شاہ کو بطور چیف جسٹس تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹری میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر سوال اٹھایا اور مزید احکامات تک انھیں کام کرنے سے روک دیا گیا اور بعد میں 10 رکنی بینچ نے ان کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا۔ ان فیصلوں کے بعد آئینی اور عدالتی بحران کا شور ہونے لگا اور اس پر سیاست دان اور ماہر وکلاء کی جانب سے بحث کی جاتی رہی۔

سجاد علی شاہ کے بعد اجمل میاں چیف جسٹس بنائے گئے اور چند ماہ بعد سعید الزّمان صدیقی اس عہدے تعینات کیے گئے۔

Comments

- Advertisement -