اشتہار

دادا امیر حیدر خان: ایک انقلابی اور کمیونسٹ راہ نما کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

آج عظیم انقلابی اور کمیونسٹ راہ نما دادا امیر حیدر خان کا یومِ‌ وفات ہے جو پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کو منظّم کرنے اور اس پلیٹ فارم سے انقلابی جدوجہد کرنے کی پاداش میں‌ کئی بار گرفتار ہوئے اور طرح طرح‌ کی صعوبتیں کیں۔ دادا امیر حیدر خان 26 دسمبر 1989ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔

2 مارچ 1900ء کو ضلع راولپنڈی میں پیدا ہونے والے دادا امیر حیدر خان کا بچپن اور نوجوانی کے ایّام بڑی محرومیوں اور تنگی دیکھتے ہوئےگزرے جس نے انھیں‌ معاشرے کا باغی اور نظریات کا کھرا بنا دیا تھا۔ وہ نہایت کم عمری میں تلاش معاش میں گھر سے نکلے تھے اور 1914ء میں بمبئی میں برٹش مرچنٹ نیوی میں ملازم ہوگئے۔ بعد میں ان کی ملاقات غدر پارٹی کے جلا وطن راہ نمائوں سے ہوئی جس نے دادا امیر حیدر خان کو کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت پر آمادہ کیا۔ بعد ازاں سوویت یونین چلے گئے جہاں ان کی فکر اور نظریات پختہ ہوئے۔

مرزا حامد بیگ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں‌ اس عظیم انقلابی لیڈر نے اپنے بارے میں‌ بتایا تھا، ہمارا تعلق پلندری تحصیل پونچھ، کشمیر سے ہے، ہمارے آبا و اجداد موسمِ گرما میں امرائے وقت کے گھروں میں چھت سے ٹنگے جھالر دار پنکھے کھینچا کرتے اور سُدھن کہلاتے تھے۔ تین مارچ 1900ء کو میرا جنم ہوا۔ میں ابھی پانچ برس کا تھا کہ والد صاحب فوت ہوگئے۔ ایک بہن اور ہم تین بھائی بے یار و مددگار۔ میری ماں کے ساتھ میرے سوتیلے چچا کا نکاح پڑھوا دیا گیا۔

- Advertisement -

وہ بتاتے ہیں، ایک روز کسی غلطی پر ماں نے بھی مارا تو میرا دل ٹوٹ گیا اور میں بغیر شلوار پہنے، ایک لمبے کرتے میں پشاور بھاگ گیا۔ مجھے خچر بس سروس، پشاور میں مزدوری کا کام مل گیا۔ پشاور سے کئی روز بعد گھر پلٹا تو ماں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ سوتیلے چچا نے مجھے مولوی محمد جی کے پاس الف لام میم پڑھنے پر لگا دیا۔ لیکن شاید مجھے مزید ٹھوکریں کھانا تھیں۔ ہمارے گھر سے گورنمنٹ پرائمری اسکول بیول، تحصیل گوجر خان آٹھ میل دور تھا۔ چچا نے سوچا وہاں ٹھیک رہے گا۔ سو مجھے بیول بھیج دیا گیا۔ وہاں، اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے مجھے مدرسین کے گھوڑوں کو پانی پلانے اور اسکول کی جھاڑو دینے کا کام سونپا۔ لیکن اس کا مجھے فائدہ بھی ہوا۔ وہ یوں کہ اس کام کے بدلے مجھے کھانے کو روٹی اور سونے کو ہیڈ ماسٹر کے گھر کے ڈیوڑھی بھی میسر آگئی۔ جس میں مال مویشی بھی بندھے ہوتے۔ ایسے میں، میں خود حیران ہوں کہ تین جماعتیں کیوں کر پاس کر گیا۔

ایک مرتبہ وہ حالات سے تنگ آکر بمبئی چلے گئے جب ان کی عمر تیرہ چودہ برس تھی۔ بمبئی کی بندرگاہ پر دخانی جہازوں پر روزی کا ذریعہ بن گیا۔ صبح سے شام ڈھلے تک کام اور صرف کام۔ بہت مشکل اور کڑے دن تھے اور پھر وہ ایک بحری جہاز پر سوار ہو کر برطانیہ پہنچے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہاں بیگار میں بھرتی کر کے لایا گیا ہے اور اب اس جبری مشقت کا معاوضہ صرف ایک پاﺅنڈ ملا کرے گا۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کے عروج کا زمانہ تھا، لیکن 1916ء میں ان کو ساتھیوں سمیت تاجِ برطانیہ کا باغی قرار دے کر قید کر دیا گیا۔ برطانیہ میں زیرِ حراست رکھنے کے بعد سنگا پور لائے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین بمبئی پہنچے۔

انھیں کئی بحری اسفار کرنے کا موقع ملا جس میں برطانیہ، ساﺅتھ افریقہ اور امریکا اور فرانس شامل ہیں یہاں تک کہ پہلی جنگِ عظیم ختم ہوگئی۔ لیکن اس ساری اکھاڑ پچھاڑ اور اپنے وطن میں برطانوی سامراج کے کرتوت دیکھ کر دادا امیر حیدر خان میں ایک انقلابی روح بیدار ہوچکی تھی۔ انھوں نے سامراج دشمن، محبانِ وطن کی انقلابی جماعت ”غدر پارٹی“ کی رکنیت حاصل کر لی اور فروری 1921ء میں غدر پارٹی کے پمفلٹس اور ہینڈ بلز کے ساتھ ایک بحری جہاز کے ذریعے شنگھائی پہنچے۔ بعد میں ہندوستان میں سامراجی جبر شدید تر ہوجانے پر وہ ماسکو چلے گئے تھے۔ 1932ء میں واپسی پر گرفتار ہوئے لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں‌ ہٹے۔

تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان میں‌ کمیونسٹ پارٹی کو منظّم کرنے میں مصروف رہے۔ اس زمانے میں‌ ان کی زندگی کا بیش تر حصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزرا۔

امیر حیدر خان کی سوانح عمری Chains to Lose کے نام سے انگریزی میں اور دادا کے نام سے اردو میں شائع ہوچکی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں