تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

سائفر کی کھوکھلی اور من گھڑت کہانی بے نقاب ہوچکی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی : ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ سائفر کی کھوکھلی اور من گھڑت کہانی بے نقاب ہوچکی۔

تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم کشمیری بہن بھائیوں کیساتھ کھڑی ہے، کشمیر کے مسئلے کا حل انکی امنگوں،عالمی قراردادوں کے مطابق نکالاجائے۔

امریکی سفائر سے متعلق لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو اس وقت بھی ارشد شریف نے تحقیقاتی صحافت کی، سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے جڑے محرکات تک پہنچنا ضروری ہے

انھوں نے بتایا کہ 11مارچ کو آرمی چیف نے سائفر کا بتایا تو سابق وزیراعظم نے کہا یہ کوئی بڑی بات نہیں، لیکن 27 مارچ کے جلسے میں کاغذ کا ٹکرا لہرایا گیا، جو ہمارے لئے حیران کن تھا، ہمارے لئے حیران کن تھا ڈرامائی انداز میں بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی، یہ باتیں بھی کی گئیں کہ شاید ان کو میٹنگ کے منٹس اور سائفر بھی دکھایاگیا تھا۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 31مارچ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ بھی اس سلسلے کی کڑی تھی، نیشنل سیکیورٹی کو بریف کیا گیا یہ پاکستانی سفیرکی ذاتی اسسمنٹ ہے، پاکستانی سفیرنے جولائحہ عمل اختیار کیا وہی نیشنل سیکیورٹی نے کیا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آئی ایس آئی نے قومی سلامتی کمیٹی کو بتایا حکومت کے خلاف سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، ہم نے تحقیقات کے نتائج کو پبلک کرنے کا فیصلہ اس وقت کی حکومت پر چھوڑا، ان سب کے باوجود منفی پراپیگنڈا اور سازش کا کھیل رچایا گیا، قوم اور افواج، فوجی اور سپہ سالار میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ذہن سازی سے قوم اورافواج پاکستان میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان اوراداروں کودنیابھرمیں بدنام کرنےکی کوئی کثر نہیں چھوڑی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جوآئین کیخلاف تھی۔

انھوں نے کہا کہ نیوٹرل اور جانور جیسے لفظ سے بات چیت کی گئی لیکن آرمی چیف نے انتہائی صبراور تحمل سےکام لیا۔

پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ یہ فوج آپ کی ہے ہم کمزور ،غلطیاں کرسکتے ہیں مگر غدار ، سازشی نہیں ہو سکتے، فوج عوام کے بغیر کچھ نہیں ہے، ہم اس سے نبرآزما ہیں ہم اس سے باہرنکلیں گے، ہم کبھی انسٹیٹیوشن کے طور پر قوم کو مایوس نہیں کریں گے یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی فوج کیخلاف بات کرتا ہے جیسے آزادی اظہار رائے کا حق آئین دیتا ہے، اسی طرح بغیر ثبوت کردار کشی کی اجازت آئین نہیں دیتا، اداروں پربھی بات کرنے کی اجازت آئین نہیں دیتا۔

آرمی چیف کی تعیناتی کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی آئینی طریقہ کار کے مطابق اور وقت پر ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ مسئلہ تب ہوتا ہے جب تنقید سے بڑھ کرالزام تراشی ،من گھڑت پروپیگنڈے ہوتےہیں، ہمارے پاس ایسا فورم نہیں کہ ہر روز آکر سوالوں کا جواب دیں نہ ہی سوٹ کرتا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جتنی انفارمیشن شیئرکی وہ اتنی ہی کرسکتےہیں ، انٹرنیشنل چیلنجز بہت ہیں، پاکستان دنیامیں اسٹریٹجیکلی اہم ملک ہے۔

انھوں نے کہا کہ نیوٹرل کالفظ ہم نےخودکبھی استعمال نہیں کیا، نیوٹرل کہہ دینا یا جانورسے تشبیہ دینا درست نہیں، ساتھ ہی دین کاحوالہ دینا اس کردارکا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کاآئین شریعت کےعین مطابق ہے، پاکستان کا آئین اسلامی مملکت کے مطابق ہے، اسی آئین میں لکھا ہے کہ ادارےاپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ میں نے کہا ماضی میں ہم سےغلطیاں ہوئیں اسکی وجہ سے ہم پرانگلیاں اٹھتی ہیں، اس بوجھ کاقرض ہم آج تک ادا کر رہےہیں، ریکوڈک ، فیٹف، این سی اوسی، ملٹری ڈپلومیسی کے تحت آرمی چیف نے ذاتی تعلقات کو بروئے کار لاکر جو کر سکتے تھے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر کام میں یہ فوج ہمیشہ سامنے آئی ہے آج بھی ہےاور آئندہ بھی رہے گی، ہم کام پاکستان کیلئے کر رہے ہیں یہ ہمارافرض بھی ہے، انسٹیٹیوشن نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ کام اب آگے نہیں چل سکتا۔

Comments

- Advertisement -