اشتہار

عید سعید اور کسی کی دید

اشتہار

حیرت انگیز

عیدالفطر یا عرف عام میں میٹھی عید یا چھوٹی عید ہمارے لیے دینی و دنیوی ہر لحاظ سے باعث مسرت ہے۔ اصل خوشی تو خدا کے اُن نیک بندوں کی ہوتی ہے جو رمضان المبارک کے پورے روزے، پورے اہتمام سے رکھتے ہیں، فرائض وسُنَن و نوافل کا خوب خوب التزام کرتے ہیں اور ہمہ وقت اپنے رب کو راضی کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے عرض کر دوں کہ عید کا عُود سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہ وہی عُود ہے جس کا شمار آج بھی بیش قیمت عطور (عطر کی جمع) میں ہوتا ہے۔ عُود کالغوی مطلب ہے، لَوٹ کر واپس آنے والی چیز، چونکہ عید سال پورا ہونے پر دوبارہ آتی ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔

عیدالفطر اَب اس طرح کم منائی جاتی ہے جس طرح آج سے بہت سال قبل منائی جاتی تھی۔ عید کا چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا تھا، ہلال کی دید کے بعد، بزرگوں کو سلام کرتے ہوئے دعائیں لی جاتیں اور پھر عید کے لباس، پکوان سمیت تمام امور کا سلسلہ جاری ہوتا۔ رمضان المبارک میں ایک مصروفیت، عمدہ نمونے اور اچھے اشعار سے مزین، مرصع عید کارڈ کی تلاش اور اسے اپنے احباب، اعزہ اور واقفین کو ڈاک سے ارسال کرنے کی بھی ہوا کرتی تھی جو انٹرنیٹ، موبائل فون اور واٹس ایپ جیسے جدید طریقہ ہائے ربط و ضبط نے تقریباً ختم کر دی۔

- Advertisement -

اب تو اکثر لوگ، رمضان شریف کے اواخر میں، رات گئے یا ساری رات بازاروں میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، تھکن سے چُور گھر آتے ہیں تو عالَم یہ ہوتا ہے کہ بعض تو عید کی نماز پڑھے بغیر ہی سوجاتے ہیں اور دن چڑھے سو کر اٹھتے ہیں۔ رہا چاند تو اَب اُس کا وہ دینی کیا رومانوی تصور بھی کتابوں میں رہ گیا جس پر ہر چھوٹا بڑا شاعر، حتیٰ کہ تُک بند بھی طبع آزمائی ضرور کرتا۔ ایسے اشعار تو اَب کتابوں کی زینت ہیں:

دیکھا ہلالِ عید تو احساس یہ ہوا
لو ایک سال اور جدائی میں کٹ گیا
۔۔۔۔۔
ہلال عید کا ہم باہم دیکھتے ہیں
گلے مِل رہی ہیں ہماری نگاہیں
۔۔۔۔۔
ہلالِ عید کو دیکھو تو روک لو آنسو
جو ہوسکے تو محبت کا احترام کرو
۔۔۔۔۔
تیری پیشانی پہ تحریر پیامِ عید ہے
شام تیری کیا ہے، صبحِ عیش کی تمہید ہے

[عموماً پہلی تاریخ کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے، مگر اہلِ عرب کے نزدیک، ابتدائی دو اور آخری دو راتوں کا چاند ہلال ہوتا ہے، جب کہ پورے چاند کو بَدر اور دیگر تاریخوں میں قمر کہتے ہیں۔ ہلال کے لیے لفظ ’غرّہ ‘ بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ علامہ اقبال نے استعمال کیا]

غرّہ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار

جدید اردو شاعری میں عید کے چاند پر شاید ہی کسی نے ساغرؔ صدیقی سے بہتر اور مؤثر کلام پیش کیا ہو۔ ساغرؔ صدیقی نے کہا تھا:

چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
اپنی تصویر کہاں بھول گیا عید کا چاند
اُن کے اَبروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُبھا عید کا چاند
جانے کیوں آپ کے رُخسار مہک اٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چپکے سے کہا عید کا چاند
دُور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند*
لے کے حالات کے صحراؤں میں آجاتا ہے
آج بھی خلد کی رنگین فضاء عید کا چاند
تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر دَرد کے ماروں نے پیا عید کا چاند
چشم تو وسعتِ افلاک میں کھوئی ساغرؔ
دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند

*راقم کو یہاں حمایت علی شاعرؔ کے مشہور فلمی نغمے کے بول یاد آگئے؎

دور ویرانے میں اِک شمع ہے روشن کب سے
کوئی پروانہ اِدھر آئے تو کچھ بات بنے

عید کے رسم و رواج میں بھلے ہی کمی بیشی ہوگئی ہو، عیدی کا تصور ابھی برقرار ہے، یہ اور بات کہ اب عیدی کا بڑا حصہ فقط بچوں ہی کی نذر ہوتا ہے۔ لغات پر نظر ڈالیں تو عیدی کی یہ تعریف سامنے آتی ہے:

عیدی۔ اسم مؤنث: (۱)۔ عید کا انعام، عید کا خرچ جو بچوں کو دیا جائے۔ (۲)۔ وہ نظم جو استاد لوگ بچوں کو عید سے ایک روز قبل، کسی خوش نما کاغذ پر لکھ کر عید کی مبارک باد دیتے ہیں اور اس میں حق استادی وصول کرتے ہیں۔ (۳)۔ وہ مٹھائی اور نقدی وغیرہ جو عید کے دن سسرال سے آئے یا سسرال میں بھیجی جائے۔ (۴)۔ وہ خوش نما کاغذ جس پر عید کے اشعار یا قطعہ لکھتے ہیں۔

میں وہ مجنوں ہوں کہ میرا کاغذِ تصویر بھی
مثلِ عیدی باعثِ خوشنودیٔ اطفال ہے
(ذوقؔ)

اب ہم لغات سے استفادہ کرتے ہوئے عید کا ذکرکرتے ہیں۔ عید سے متعلق اشعارکی طرح، محاورے بھی بہت ہیں، مگر یہاں صرف عیدالفطر کی نسبت سے ہی محاورے نقل ہوں گے:
محاورے میں عید کا چاند ہونا سے مراد وہ شخص جسے مدت دراز کے بعد، عین حالت انتظار یا حالت اشتیاق میں دیکھا جائے:

کبھی دکھاتا ہے صورت میں برسویں دن
غرض وہ مہرِ لقا، چاند عید کا ٹھہرا
(اسیرؔلکھنوی)

کب سے شب فراق ہوں مشتاق دید کا
خورشید ہوگیا ہے مجھے چاند عید کا
(داغؔ)

آپ تو حق میں مِرے ہوگئے اب عید کا چاند
کہ برس دن میں ادھر آج کرم تم نے کیا
(معروفؔ)

عید منانا:
گر میکدے میں عید منائی تو کیا ہوا
ایسا ہی شیخ تیر ا دوگانہ قضا ہوا
(داغؔ)

عید ہونا یا ہوجانا۔ فعل لازم: عید کا تہوار ہونا۔ نیز انتہائی خوشی ہونا، مراد برآنا
خدا شاہد ہے مجھ کو عید ہوتی
گلے سے تو نے لپٹایا تو ہوتا
(ممتازؔ)

یقیں جاں اس کو اے قاتل اسی دن عید ہوجائے
گلا جس روز رکھ دوں مَیں تری تیغِ ہلالی پر
(اسیرؔلکھنوی)

ماتمِ غیر میں تمھیں دیکھا
ورنہ یہ عید کس کے گھر نہ ہوئی
(داغؔ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عید کے پیچھے چاند مبارک۔ کہاوت: تہوار گزرنے کے بعد مبارک باد دینا

عید کے پیچھے ٹر۔ کہاوت: برات کے پیچھے دھونسا۔ وقت گزر جانے کے بعد، یا ، بے موقع کسی کام کا کرنا، کیوں کہ جب تہوار نکل گیا تو خوشی کیسی اور جب برات چڑھ چکی تو باجے کس کام کے۔ (ٹر پنجاب کا ایک میلہ تھا جو عید کے دوسرے روز باغوں میں منایا جاتا تھا، یہ بعد میں دہلی میں بھی ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل پنجاب باسی عید کو ’’ٹرو‘‘ کہتے ہیں۔)

ہمارے یہاں گاؤں دیہات میں یہ روا ج بھی عام ہے کہ عید کے دن پیدا ہونے والے بچے کا نام عید یا عیدو رکھ دیا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دروغ برگردن راوی، یوگینڈا کے سابق صدرعیدی امین (مرحوم) کا یہ نام اسی لیے تجویز ہوا کہ وہ عید کے دن پیدا ہوئے تھے۔

(معروف ادیب، شاعر، محقق اور براڈ کاسٹر سہیل احمد صدیقی کے مضمون سے اقتباسات)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں