تازہ ترین

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

نوبیل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگوے کا تذکرہ

ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے باقاعدہ بگل بجا کر شادمانی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا بیٹا بڑا ہو کر کہانی کار بنا اور اسے دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔ وہ نوبیل انعام کا حق دار ٹھیرا لیکن اس کی زندگی کا انجام بڑا دردناک ہوا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے خود کُشی کی تھی۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس ناول نگار کے والد ہی نہیں‌ دادا کی موت بھی طبعی نہ تھی۔ انھوں نے بھی اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے 2 جولائی 1961ء کو خودکُشی کی جب وہ 61 برس کے تھے۔ وہ ایک ناول نگار اور صحافی کی حیثیت سے دنیا میں‌ مشہور تھے۔

شہرۂ آفاق ادیب ارنسٹ ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معزّز اور تعلیم یافتہ خاندان کے فرد تھے۔ ان کا گھرانہ فنونِ لطیفہ کا شیدائی تھا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ ہیمنگوے کی ماں گریس اپنے قصبے کی ایک مشہور گلوکار اور موسیقار تھی۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔

ہیمنگوے کے والد کو سیر و سیّاحت کے شوقین تھے۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی اکثر پُرفضا مقامات کی سیر اور شکار کی غرض سے اپنے ساتھ لے جاتے۔ ہیمنگوے نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے والد ہی سے سیکھا۔ انھیں شروع ہی سے فطرت کو قریب سے دیکھنے اور جنگلی حیات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور اس کی جھلک بعد میں‌ ان کی تحریروں میں نظر آئی۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنی تخلیقی صلاحیت کی بدولت نہایت خوبی سے اپنی مختصر کہانیوں اور ناولوں‌ میں شامل کیا اور قارئین کو متأثر کرنے میں کام یاب رہے۔

زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا اور اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا، اس کی بدولت انھیں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کے طور پر ملازمت مل گئی۔ یہاں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو معیاری کام اور عمدہ تحریر کو سمجھنے اور لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری کا موقع ملتا رہا۔ وہ ایک ایسے صحافی اور لکھاری تھے جو کھیل کود اور مہم جوئی کے دلدادہ تھے جس نے ان کی تحریروں کو دل چسپ اور قابلِ توجہ بنا دیا۔ انھیں‌ ادب کے مطالعے کے ساتھ اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، اس کا پیشہ ورانہ سفر میں‌ بہت فائدہ ہوا۔ ہیمنگوے نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضمون نویسی کرتے رہے جس نے انھیں‌ پہچان دی۔ 1921ء میں ان کی شادی ہوئی اور وہ پیرس منتقل ہوگئے جہاں ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائیوں نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

پیرس میں‌ وہ اپنے وقت کے باکمال ادیبوں اور شعرا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے جن میں‌ شہرۂ آفاق ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس بھی شامل ہیں۔ اس حلقۂ ادب میں رہتے ہوئے ہیمنگوے کو اپنی تحریروں پر داد پانے اور حوصلہ افزائی کے ساتھ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگے جن کی اشاعت نے ہیمنگوے کو پیرس اور اپنے وطن امریکہ میں بھی کہانی کار کے طور پر پہچان دی۔ وہ 1926ء میں اپنا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر لائے جو ان کی مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ہیمنگوے کا ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا اور قارئین نے انھیں‌ بہت سراہا۔ ہیمنگوے نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر کیا اور وہاں‌ قیام کے دوران بھی انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیوں سے سجاتے رہے۔ انھیں فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ایک ناول پر نوبیل انعام دیا گیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کا ناول فیئر ویل ٹو آرمز بھی بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ اردو زبان میں‌ ناول کے شائقین تک پہنچے اور انھیں‌ بہت سراہا گیا۔

ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ انھوں نے ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی، اور اسی طرح شادیاں بھی۔ ہیمنگوے نے ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی حصّہ لیا۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کے شوقین تھے اور اسی کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

فطرت کے دلدادہ، مہم جوئی کے شوقین اور انگریزی ادب میں اپنی تخلیقات کی بدولت ممتاز ہونے والے ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں مشہور ہے کہ عام روش سے ہٹ کر جب وہ کچھ لکھنا چاہتے تو کھڑے ہوجاتے تھے۔ اگر آپ ادب اور فنونِ لطیفہ کے شائق ہیں تو یقینا مشہور تخلیق کاروں‌ کی بعض دل چسپ یا ناقابلِ فہم اور اکثر بری عادات، یا ان کے لکھنے اور مطالعہ کرنے کے انداز کے بارے میں‌ بھی کوئی تحریر ضرور نظر سے گزری ہوگی۔اسی طرح کسی تخلیقی کام کے دوران یہ ادیب اور شاعر کچھ خاص طور طریقے اپناتے تھے جن میں ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتے تھے کہ وہ ان کے سینے تک پہنچتا تھا۔ غالباً یہ ان کے لیے پُرسکون طریقہ اور یکسوئی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوگا۔ تاہم بعض‌ تصاویر میں وہ کرسی پر اسی طرح بیٹھے ہوئے ٹائپ رائٹر پر کام کررہے ہیں جیسا کہ عام آدمی کرتا ہے۔

ارنسٹ ہیمنگوے اچھے نشانہ باز تھے یا نہیں‌، مگر ان کی بندوق سے نکلنے والی گولی کئی جانوروں کو شکار کرچکی تھی، کون جانتا تھا کہ ہیمنگوے ایک روز اپنی ہی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کرلیں گے۔

Comments

- Advertisement -